Showing posts with label images. Show all posts
Showing posts with label images. Show all posts
حسین تم نہیں رہے
حسین تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
مدعینہ و نجف سے کربلا تک ایک سلسلہ
ادھر جو آ گیا وہ پھر اِدھر اُدھر نہیں رہا
صدائے استغاہء حسین کے جواب میں
جو حرف بھی رقم ہوا وہ بے اثر نہیں رہا
صفیں جمیں تو کربلا میں بات کھل کے آگئ
کوئ بھی حیلہء نفاق کارگر نہیں رہا
بس ایک نام---اُنکا نام اور اُن کی نسبتیں
جز انکے پھر کسی کا دھیان عمر بھر نہیں رہا
کوئ بھی ہو کسی طرف کا ہو کسی نسب کا ہو
جو تم سے منحرف ہوا وہ معتبر نہیں رہا
Turbat Imam Hussain (as) which turned into blood
عاشورا کے خون بار واقعے سے تقریبا 14 صدیاں گذرنے کے
باوجود، یا زخم ابھی آسمان و زمین میں تازہ کائنات پوری عزادار ہے
سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کی۔
تازہ ترین عاشورائی واقعے میں اتوار 10 محرم الحرام 1434 (26/نومبر 2012) کو عاشورائے اباعبداللہ علیہ السلام کے موقع پر سیدالشہداء علیہ السلام کے میوزیم میں رکھی ہوئی قبر شریف امام حسین (ع) کی اصل تربت کا رنگ خون میں بدل گیا۔
یہ واقعہ عینی شاہدین کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے اور عاشورائے حسینی کے موقع پر رونما ہوا اور میوزیم کے اہلکاروں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور اس واقعے کی تصویریں آستانۂ مقدسۂ حضرت علمدار کربلا ابوالفضل العباس علیہ السلام سے ویب سائٹ "الکفیل" نے شائع کی ہیں۔
نیز آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے اور آستانۂ امام حسین علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام والمسلمین شیخ عبدالمہدی الکربلائی نے ذاتی طور پر میوزیم میں جاکر اس واقعے کا مشاہدہ کیا اور ہزاروں افراد نے میوزیم کا دورہ کیا۔
تازہ ترین عاشورائی واقعے میں اتوار 10 محرم الحرام 1434 (26/نومبر 2012) کو عاشورائے اباعبداللہ علیہ السلام کے موقع پر سیدالشہداء علیہ السلام کے میوزیم میں رکھی ہوئی قبر شریف امام حسین (ع) کی اصل تربت کا رنگ خون میں بدل گیا۔
یہ واقعہ عینی شاہدین کی حیرت زدہ آنکھوں کے سامنے اور عاشورائے حسینی کے موقع پر رونما ہوا اور میوزیم کے اہلکاروں نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور اس واقعے کی تصویریں آستانۂ مقدسۂ حضرت علمدار کربلا ابوالفضل العباس علیہ السلام سے ویب سائٹ "الکفیل" نے شائع کی ہیں۔
نیز آیت اللہ العظمی سیستانی کے نمائندے اور آستانۂ امام حسین علیہ السلام کے متولی حجت الاسلام والمسلمین شیخ عبدالمہدی الکربلائی نے ذاتی طور پر میوزیم میں جاکر اس واقعے کا مشاہدہ کیا اور ہزاروں افراد نے میوزیم کا دورہ کیا۔
شیعہ اور سنی کتب میں منقولہ معتبر احادیث میں مروی
ہے کہ جبرائیل امین (ع) نے کربلا کی خاک میں سے تھوڑی سی مٹی امام حسین
علیہ السلام کی شہادت کی خبر کے ساتھ ہی رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و
سلم کے سپرد کی اور رسول اکرم (ص) نے وہ مٹی ام المؤمنین امّ سلمہ کے پاس
رکھ لی اور فرمایا: "جب اس مٹی کا رنگ خون کے رنگ میں بدل جائے تو سمجھ
لینا کہ میرے فرزند حسین (علیہ السلام) کربلا کی سرزمین پر قتل ہوئے ہیں"۔
حدیث کا متن یہ ہے: عن عمر بن ثابت عن الاعمش عن شقيق عن امّ سلمة قالت: كان الحسن والحسين (عليهما السلام) يلعبان بين يدي رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) في بيتي؛ فنزل جبریل فقال: "يا محمّد إن امتك تقتل ابنك هذا من بعدك" و أومأ بيده إلى الحسين(ع). فبكى رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) وضمّه إلى صدره ثم قال رسول اللّه(ص): "وضعت عندك هذه التربة" فشمّها رسول اللّه (ص) قال: ريح كرب و بلاء، و قال: "يا ام سلمة إذا تحولت هذه التربة دماً فاعلمي أن ابني قد قتل
".
ترجمه: عمر بن ثابت نے اعمش سے اور اعمش نے شقیق سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ نے کہا: ایک دن حسن اور حسین علیہما السلام میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل (ع) نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کرے گی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ رسول اللہ (ص) روئے اور امام حسین (ع) کو اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے جبرائیل کی دی ہوئی مٹی کو سونگھا اور فرمایا "اس سے کرب و بلاء کی بو آرہی ہے۔ اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ام سلمہ! میں یہ مٹی تمہارے پاس رکھتا ہوں اور جب یہ خون میں بدل جائے تو جان لو کہ میرے بیٹے حسین قتل کئے گئے ہیں۔
سنی محدثین ـ جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ـ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
ابن حجر عسقلانی، "تہذيب الہذیب"،
ابن ابی بکر ہیثمی، "مجمع الزوائد"
الطبرانی، "المعجم الکبیر"
حدیث کا متن یہ ہے: عن عمر بن ثابت عن الاعمش عن شقيق عن امّ سلمة قالت: كان الحسن والحسين (عليهما السلام) يلعبان بين يدي رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) في بيتي؛ فنزل جبریل فقال: "يا محمّد إن امتك تقتل ابنك هذا من بعدك" و أومأ بيده إلى الحسين(ع). فبكى رسول اللّه (صلى الله عليه وآله) وضمّه إلى صدره ثم قال رسول اللّه(ص): "وضعت عندك هذه التربة" فشمّها رسول اللّه (ص) قال: ريح كرب و بلاء، و قال: "يا ام سلمة إذا تحولت هذه التربة دماً فاعلمي أن ابني قد قتل
".
ترجمه: عمر بن ثابت نے اعمش سے اور اعمش نے شقیق سے روایت کی ہے کہ جناب ام سلمہ نے کہا: ایک دن حسن اور حسین علیہما السلام میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل (ع) نازل ہوئے اور رسول اللہ (ص) سے عرض کیا: آپ کے بعد آپ کی امت آپ کے اس بیٹے کو قتل کرے گی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔ رسول اللہ (ص) روئے اور امام حسین (ع) کو اپنے سینے سے لگایا۔ اس کے بعد رسول اللہ (ص) نے جبرائیل کی دی ہوئی مٹی کو سونگھا اور فرمایا "اس سے کرب و بلاء کی بو آرہی ہے۔ اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ام سلمہ! میں یہ مٹی تمہارے پاس رکھتا ہوں اور جب یہ خون میں بدل جائے تو جان لو کہ میرے بیٹے حسین قتل کئے گئے ہیں۔
سنی محدثین ـ جنہوں نے یہ حدیث نقل کی ہے ـ میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
ابن حجر عسقلانی، "تہذيب الہذیب"،
ابن ابی بکر ہیثمی، "مجمع الزوائد"
الطبرانی، "المعجم الکبیر"
پہلا شخص جو میری سنت کو تبدیل کرے گا وہ بنی امیہ سے ہوگا
شیخ ناصر الدین البانی نے اپنے سلسلة الأحاديث الصحيحة میں
رسول اللہ [ص] کی غیب کی پیشنگوئیوں کے حوالہ سے عنوان قائم کیا ھے جسکے
ذیل میں ابن ابی عاصم کے طریق سے ایک روایت کی تخریج کری ھے رسول خدا [ص]
نے فرمایا کہ پہلا شخص جو میری سنت کو تبدیل کرے گا وہ بنی امیہ سے ہوگا۔
شیخ البانی نے اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ھے جبکہ حدیث کے متن کے حوالہ
سے شیخ البانی لکھتے ہیں کہ شاید اس حدیث میں تبدیلی سے خلیفہ کے انتخاب
کے طریقہ کار کی تبدیلی اور خلافت کو میراث بنالینا مراد ہو ۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة//جلد4//صفحہ329//طبعہ مکتبہ معارف ریاض۔
ہماری نظر میں شیخ البانی کی یہ تاویل فاسد ھے جسکی رکاکت ظاہر ھے کیونکہ سنت رسول [ص] کے اسوہ حسنہ سے تعبیر ھے جسکا خلیفہ کے انتخاب کے طریقہ کار سے دور کا بھی کوئی تعلق نہی ھے۔
سلسلة الأحاديث الصحيحة//جلد4//صفحہ329//طبعہ مکتبہ معارف ریاض۔
ہماری نظر میں شیخ البانی کی یہ تاویل فاسد ھے جسکی رکاکت ظاہر ھے کیونکہ سنت رسول [ص] کے اسوہ حسنہ سے تعبیر ھے جسکا خلیفہ کے انتخاب کے طریقہ کار سے دور کا بھی کوئی تعلق نہی ھے۔
Daarul Uloom Deoband Fatwa for Yazeed proves that they are Yazeedis!!!
I don't know why the hell they want to prove that YAZEED (Lanatulah Alaih) was innocent and among Taba'een. Shame on supporters & promoters of Yazeed.
Khuda insab ko inke jadd Yazeed ke sath mehshoor farmaye!
Khuda insab ko inke jadd Yazeed ke sath mehshoor farmaye!
عجیب تیری سیاست عجیب تیرانظام
یزید سے بھی مراسم حسین کو بھی سلام
***Hussainiyat zindabad***
Yazeediat murdabad
امام حسین پر رونے کا ثواب جنت ہے :فضائل الصح
امام حسین پر رونے کا ثواب جنت ہے :فضائل الصحابہ ،امام احمد
حدثنا أحمد بن إسرائيل قال رأيت في كتاب أحمد بن محمد بن حنبل رحمه الله بخط يده نا اسود بن عامر أبو عبد الرحمن قثنا الربيع بن منذر عن أبيه قال : كان حسين بن علي يقول من دمعتا عيناه فينا دمعة أو قطرت عيناه فينا قطرة اثواه الله عز و جل الجنة
یعنی
:حسین بن علی [علیہا السلام ] فرمایا کرتے تھے جو کوئی ہمارے اوپر ایک آنسو بہائے یا ایک قطرہ اشک بہائے خدا وند اس کا اجر ،جنت قرار دیگا
فضائل الصحابة ج 2 ص 675
المؤلف : أحمد بن حنبل أبو عبد الله الشيباني
الناشر : مؤسسة الرسالة - بيروت
الطبعة الأولى ، 1403 - 1983
تحقيق : د. وصي الله محمد عباسFor Scan Pages See Below
گریہ و ماتم-Ghirya o Matam
ایک ناصبی نے ہمارے گروپ شیعہ یونٹی میں ایک پوسٹ بھیجی جس میں لکھا تھا کہ رونہ و ماتم کو قرآن مجید سے ثابت کیجئے وہاں تو ہم لوگوں نے اس ناصبی کو جواب دے دیا سوچا کہ آپ دوستوں کے ساتھہ بھی یہ بات شیر کروں
وہ مذہب ہی نہیں جن کے عقائد قرآن سے ثابت نہ ہو
مخالفین عزادری امام حسین عموماً حکم صبر کو عزاداری کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں -حالانکہ صبر کے معنی وہ نہیں ہے جو معترضین لیتے ہیں صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی چیز کے اظہار سے روکے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے-
قرآن
قرآن مجید میں جابجہ موجود ہے کہ تمام انبیاء کرام مختلف موقعوں پے روئے گر گرائے لیکن ذات خدا نے ان کے اس فعل کو ناجائز قرار نہیں دیا
قرآن مجید کھول کے ماتم حسین کو حرام کہنے والے دیکھہ لے کہ جناب آدم ء -نوح ء- ایوبء- یحییء- ذکریاء- یونسء-اور حضرت یعقوب جیسے جلیل القدر نبی روئے-
آپ ص نے اپنے لیے اور اپنے اصحاب کے لیے رونے کو پسند کیا اور کبھی کھل کر آپ صہ نہ ہنسے
ارشاد رب العزت ہے
وتضحکون ولا تبکون و انتم صامدون
اور مضحکہ کرتے ہو اور نہیں روتے؟اور تم غافل ہو
النجم
اذا تتلی علیھم آیات الرحمن خر و السجدا وبکیا
جب ان پر آیات رحمان کی تلاوت کی جاتی ہے تو روتے ہیں سجدے میں گر پرتے ہیں
مریم 58
اب آتے ہیں ان آیات کی طرف جو غم و رنج کے عالم میں رونے کو جائز ورار دیتی ہے
اور نہ ان لوگوں پے کوئی گناہ یا الزام ہے کہ جس وقت آپ کے پاس اس واسطے سے آتے ہیں کہ آُ ان کو سواری دیدے اور آپ کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کردوں وہ اس حالت سے واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو روا ہوتے ہیں اس غم میں کے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھہ نہیں
قرآن مجید پارہ نمبر 10 سورہ التوبہ آیت نمبر 93
اس آیت سے ثابت ہوا کہ غم یا افسوس کے اوقات میں رونا منع نہیں بلکہ جائز قابل تعریف ہے
چنانچہ قرآن مجید حضرت یعقوب ء کا قصہ موجود ہے کہ فراق پسر میں حزن و رنج کے عالم میں ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں پھر قرآن مجید میں ہی ملتا ہے ان باتوں کے باوجود اللہ پاک نے حضرت یعقوب کو صبر جمیل کا لقب عطا فرمایا
پس ثابت ہوا کہ رونا خلاف صبر نہیں
اب سب سے برا اعتراض جو ہے وہ ماتم کرنے کا ہے آیئے قرآن مجید سے دیکھتے ہیں کہ کسی نے اگر ماتم کیا تو اللہ نے اسے روکا تو نہیں اگر روکا ہے تو گناہ ہے اور اگر نہیں تو اجازت الہی میں شامل ہے جس چیز کی اجازت ہو اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے
ملاحظہ فرمائیں
پس آئی بیوی ابرہیم کی چلاتی ہوئی اور اس نے اپنا منہ----
الذاریت 29
امید ہے اعتراض لگانے والے اس چھوٹے سے آرٹیکل کو خوب پرھہ کے جواب دینے کی کوشش کرینگے
اب شیعہ لوگوں نے اپنی بات قرآن سے ثابت کرلی ہے مگر اتہام حجت کرنے کے لیے کچھہ روایات پیش کرتے ہیں
حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول خدا نے وفات پائی تو میں نے حضور کا سر تقیہ مبارک پر رکھہ دیا میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی اور میں نے اپنا منہ پیٹا-
مسند احمد بن حنبل ج 6 ص 274
تاریخ طبری ج 3
تاریخ السلام
السیر ۃ النبویہ ص 306
شریعت عہد رسالت میں مکمل ہوچکی تھی لہذا بی بی عائشہ نے تکمیل شریعت کے بعد ماتم کیا پس ثآبت ہوا کہ آنحضرت نے ماتم کو حرام قرار نہیں دیا تھا
زرا امی عائشہ کے الفاظ پے غور کیجیے میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی یعنی بقیہ ازواج نے بھی ماتم کیا
Matam aur Azadari -Sunni References
شہیدِ اسلام حضرت حًزہ پر رونے والوں کو رسول پاک (ص) نے دعا دی رونے کو بدعت نہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔
یا حضرت اویس رضی اللہ عنہ نے جو کیا وہ ماتم نہیں؟
کم از کم ان کی سنت تو ادا کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم خوامخواہ 351 ہجری لے چلے۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے مرثیہ بھی رسول اکرم(ص) کے زمانے میں دکھا دیا اور ماتم بھی صحابہ کے فعل سے ثابت کر دیا۔۔۔۔۔ رونا بھی ثابت ہو گیا بلکہ رسول(ص) نے دعا بھی دی۔۔۔۔۔۔
صبر کے مقامات ہوتے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر بار صبر نہیں کر سکتا صبر افضل ضرور ہے مگر صبر نہ کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا ہاں وہ اللہ سے شکایت نہ کرے۔۔۔۔ محبت کی انتہائی شدت بعض اوقات انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ جس سے محبت کر رہا ہے اس کے لئے دل کھول کر روئے ۔۔۔۔ احتجاج کے دوران جب جذبات کی شدت حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ سینہ پیٹ کر اپنے شدتِ جذبات کا احساس دلاتے ہیں اور آج کل کے مظاہروں میں تو اہلِ سنت حضرات بھی روٹی کی خاطر یا تنخواہ بڑھانے کی خاطر سینہ پیٹتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ وہ صبر کیوں نہیں کرتے؟ دنیاوی کاموں سے محبت میں سینہ پیٹنا جائز مگر محبتِ حسین میں سینہ پیٹنا بدعت۔۔۔۔ اور تب صبر بھی یاد آ جاتا ہے۔۔۔۔
اور عمر صاحب دین اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانی فطرت سے متصادم کوئی قانون اس میں شامل نہیں۔
حضرت اویس رضی اللہ عنہ بھی تو صبر کر سکتے تھے نہ؟
کم از کم ان کی سنت تو ادا کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم خوامخواہ 351 ہجری لے چلے۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے مرثیہ بھی رسول اکرم(ص) کے زمانے میں دکھا دیا اور ماتم بھی صحابہ کے فعل سے ثابت کر دیا۔۔۔۔۔ رونا بھی ثابت ہو گیا بلکہ رسول(ص) نے دعا بھی دی۔۔۔۔۔۔
صبر کے مقامات ہوتے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر بار صبر نہیں کر سکتا صبر افضل ضرور ہے مگر صبر نہ کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا ہاں وہ اللہ سے شکایت نہ کرے۔۔۔۔ محبت کی انتہائی شدت بعض اوقات انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ جس سے محبت کر رہا ہے اس کے لئے دل کھول کر روئے ۔۔۔۔ احتجاج کے دوران جب جذبات کی شدت حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ سینہ پیٹ کر اپنے شدتِ جذبات کا احساس دلاتے ہیں اور آج کل کے مظاہروں میں تو اہلِ سنت حضرات بھی روٹی کی خاطر یا تنخواہ بڑھانے کی خاطر سینہ پیٹتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ وہ صبر کیوں نہیں کرتے؟ دنیاوی کاموں سے محبت میں سینہ پیٹنا جائز مگر محبتِ حسین میں سینہ پیٹنا بدعت۔۔۔۔ اور تب صبر بھی یاد آ جاتا ہے۔۔۔۔
اور عمر صاحب دین اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانی فطرت سے متصادم کوئی قانون اس میں شامل نہیں۔
حضرت اویس رضی اللہ عنہ بھی تو صبر کر سکتے تھے نہ؟
امی عائشہ کا ماتم
امی عائشہ فرماتی ہیں : جب رسول (ص) کا وصال ہوا تو رسول (ص) کا سر امی کی گود میں تھا امی عائشہ نے رسول (ص) کے وصال پر اپنے منہ پر خوب طمانچے مارے
حدثنا : يعقوب قال : ، حدثنا : أبي ، عن إبن إسحاق قال : ، حدثني : يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن أبيه عباد قال : سمعت عائشة تقول : مات رسول الله (ص) بين سحري ونحري ، وفي دولتي لم أظلم فيه أحداً فمن سفهي وحداثة سني أن رسول الله قبض وهو في حجري ، ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ألتدم مع النساء وأضرب وجهي
مسند أحمد - باقي مسند الأنصار - باقي المسند السابق - رقم الحديث : ۲۵۱۴۴
تاویل
قول السيدة عائشة ( ألتدم ) ، قال السهيلي وغيره : الإلتدام : ضرب الخد باليد ، واللادم : المرأة التي تلدم والجمع : اللدم بتحريك الدال وقد لدمت المرأة تلدم لدماً ولم يدخل هذا في التحريم ، لأن التحريم ، إنما وقع على الصراخ والنوح ، ولعنت الخارقة والحالقة والصالقة - وهي الرافعة لصوتها - ولم يذكر اللدم لكنه وإن لم يذكر فإنه مكروه في حال المصيبة ، وتركه أحمد إلاّ على أحمد (ص) : فالصبر يحمد في المصائب كلها * إلاّ عليك فإنه مذموم وقد كان يدعي لابس الصبر حازما * فأصبح يدعى حازما حين يجزع
سبل الهدى والرشاد ج۱۲ ص۲۶۷
سند
وقد أخرج عمر أخت أبي بكر حين ناحتوصله بن سعد في الطبقات بإسناد صحيح من طريقالزهري ، عن سعيد بن المسيب قال : لما توفي أبو بكر أقامت عائشة عليه النوح فبلغ عمر فنهاهن فأبين فقال لهشام بن الوليد : أخرج إلى بيت أبي قحافة يعني أم فروة فعلاها بالدرة ضربات فتفرقالنوائح حين سمعن بذلك ، ووصله إسحاق بن راهويه في مسنده من وجه آخر ، عن الزهري وفيه فجعل يخرجهن إمرأة إمرأة وهو يضربهن بالدرة
فتح الباري ج۵ ص۷۴
This is what we believe
O my Allah, bring me to life again, after death, in the place Mohammad
and his “Aal” (children) are dwelling, and make me depart from this
world like Mohammad and his “Aal” (children) had left. Amen
For us Muharram is not only about Imam Hussain (a.s.), it is a time
of spiritual renewal and personal reflection- as well as a chance for us
to continue the fight against oppression and inequality in the world
around us. The traditional saying is that “every day is Ashura, every land is Karbalah”.
We believe that the lessons of Ashura should not just be left in our
places of worship, they should become a reality as we contemplate the
reality of tyranny in our own societies. For us, Hussain (a.s.) himself
represents the very pinnacle of our existence- the embodiment of truth
and justice that Islam serves to uphold. His martyrdom represents the
capability of evil to destroy even that which is firm in imaan (faith), compassion, social equality, and steadfastness in following truth. Hussain (a.s.) knew which side he was on. One
one side, autocracy, injustice, and oppression, whilst on the other,
the oppressed masses, their struggle for justice and their yearning for
liberation. Surrounded and outnumbered, our Imam (a.s.) chose his side
and paid for it with his life. With everything stacked up
against him, Hussain stood up for the people and their freedom, siding
with what he knew was right. He didn’t allow any biases or
preconceptions to come in the way of his ultimate choice. He objectively
analysed the reality around him, recognized the truth, and made his
stand.
The position of Imam Hussain (a.s.) himself in Islam, regardless of
what school of thought or sect we follow, is something that alone should
be reason enough to commemorate the month in which he and his followers
were granted istishhad (martyrdom).
The Prophet Muhammad (s) said, among other ahadith:
“Hussain is from me, and I am from Hussain”. (Jami Tirmidhi)
“ I saw the Messenger of God pitch a tent in which he placed ‘Ali, Fatima, Hasan, and Husayn. He then declared: ‘O
Muslims, I am at war against anyone who wars against the people of this
tent, and am at peace with those who show peace toward them. I am a
friend to those who befriend them. He who shows love toward
them shall be one of a happy ancestry and good birth. Nor would anyone
hate them except that he be of miserable ancestry and evil birth.”
(Al-Riyadh an-Nadhira)
“When God’s Messenger was asked which member of his family was the dearest to him, he replied, “Al-Hasan and al-Hussain.” He used tosay to Fatimah, “Call my two sons to me,” and then would sniff and cuddle them.” (Tirmidhi)
“Al-Hasan and al-Husain are the chiefs of the youth of Paradise
and Fatimah is the chief of their women.” (Tirmidhi, Ibn Majah,
al-Tabarani)”.
To remember the death of Imam Hussain (a.s.) and his companions is to remember the day that the rights of the Prophet Muhammad’s (s) holy and purified family were robbed from them- and their companions oppressed and slaughtered. He set out towards Kufah with one message:
“I will never give Yazid my hand like a man who has been
humiliated, nor will I flee like a slave… I have not risen to spread
evil or to show off – nor for spreading immorality or oppression. Rather, I have left to restore the teachings of my grandfather Muhammad. And I only desire to spread good values and prevent evil.”
When Hussain (a.s.) was deserted by many of his supporters, he issued a cry that implored future generations and one which still echoes in the hearts of the oppressed and those seeking justice until today: “Is there anybody to help us?”
To us, Imam Hussain (a.s.) and the tragedy of his oppression and death at the hands of the dictator of the time represent the battle for compassion, truth, equality, justice, moral strength, and courage. When the majority would have ran away and would have backed down from confronting Yazeed, our Imam (a.s.) was willing to stand up for justice no matter what the cost was- even his life. He was the man who saved Islam as a religion from being destroyed by corrupt powers, the man who stood up for the rights of the impoverished and oppressed, and the man who continues to inspire hundreds of millions across the globe to this day. His message cuts across class divides, ethnic lines, and even religious divides.
The Salt March, in which Mahatma Gandhi marched for justice and
independence in a revolutionary act of civil disobedience across the
plains of Gujarat, India- was inspired by Imam Hussain (a.s.).
Gandhi stated:
“I learnt from Hussain how to achieve victory while being oppressed.”
The Syrian Christian historian Antoine Bara said:
“No battle in the modern and past history of mankind has earned
more sympathy and admiration as well as provided more lessons than the
martyrdom of Hussain in the battle of Karbala.”
There’s so, so, much more I could say about the significance of Imam
Hussain (a.s.) and the importance of mourning/commemorating the day of
Ashura but this should give you a basic idea.
Our Message :
Do you love Prophet Mohammad (pbuh)? Your answer, I presume, is yes of course.
Wouldn’t you then love his family? His grandsons? The men who carried the same blood as the Holy Prophet himself?
Wouldn’t you then remember the cruel way his grandson, Imam Hussain (as), was beheaded?
Remember Karbala, remember what the Prophet’s grandson stood for, remember what he died for… You don’t need to be part of a certain sect to remember his sacrifice for Islam.
Wouldn’t you then love his family? His grandsons? The men who carried the same blood as the Holy Prophet himself?
Wouldn’t you then remember the cruel way his grandson, Imam Hussain (as), was beheaded?
Remember Karbala, remember what the Prophet’s grandson stood for, remember what he died for… You don’t need to be part of a certain sect to remember his sacrifice for Islam.
Who was Ziyad? Was he a Shia of Ali??
Ziyad was a very intelligent man, a good politician, wise and a shia of Alee (a.s),
who made him a governor in Fars. When Muawiya joined Ziyad to himself
(by saying that you are son of Aboo Sufiyan and my brother) he turned into the worst enemy of the family (of the Prophet) and Shi'ee of Alee (a.s) and he is the one who killed Hujr Ibn Adi and his people...
Source: Lisan al-Mizan Asqalani Vol 3, Pg. # 531
Source: Lisan al-Mizan Asqalani Vol 3, Pg. # 531
"Ziyad (لعنت اللہ) was always in search of the Shiites of Alee (عليه السلام) and killed them, when Hassan Ibn Alee (عليه السلام) heard it he prayed to Allah (swt) and said: "O my Allah (swt) put his death soon, because death is his punishment".
Source: Majmahul Zawahid Haithami Vol 6, Pg. # 408
Source: Majmahul Zawahid Haithami Vol 6, Pg. # 408
This has also been recorded in: Mohjam al-Kabir Tabarani Vol 3, Pg. # 68, Siyar Ahlam Nobala Zahabi Vol 3, Pg. # 496, Tarikh al-Islam Zahabi Vol 4, Pg. # 210
Ibn Ziyad now as a governor for Yazid (la) set out spy's in order to seek out any loyal supporters of the Imam Hussain (a.s). It was brought to his attention Hani ibn Urwa (r.a) was among them. Ibn Ziyad (la) threatened Hani to give up the location of Muslim bin Aqeel to which he refused. Ibn Ziyad (la) remind him that he would not spare his life as it was not done so with Hujar ibn Adi and his friends. Hani ibn Uraw (r.a) refused to do so which later lead to him been murdered by Yazid (la) and his henchmen. The testimony of Ibn Ziyad to Hani Ibn Urwa also verify's that the loyal supporters of Ahlulbayt (a.s) were few in numbers.
Ibn Ziyad now as a governor for Yazid (la) set out spy's in order to seek out any loyal supporters of the Imam Hussain (a.s). It was brought to his attention Hani ibn Urwa (r.a) was among them. Ibn Ziyad (la) threatened Hani to give up the location of Muslim bin Aqeel to which he refused. Ibn Ziyad (la) remind him that he would not spare his life as it was not done so with Hujar ibn Adi and his friends. Hani ibn Uraw (r.a) refused to do so which later lead to him been murdered by Yazid (la) and his henchmen. The testimony of Ibn Ziyad to Hani Ibn Urwa also verify's that the loyal supporters of Ahlulbayt (a.s) were few in numbers.
(فقال
عبيدالله : يا هاني اما تعلم ان ابي قدم هذا البلد فلم يترك احدا من هذه
الشيعة الا قتله غير ابيك وغير حجر ، وكان مع حجر ما قد علمت ،)
"Don't you
know Hani, when my father came to this land, he did not spare the life
of any one of the Shi'ee except for your father and Hujr? (And) You know
what happened to Hujr?!"
Source: Tarikh Al-Tabari Vol 5, Pg. # 361
On the
acknowledgement of this letter Yazid (l.a) issued an order to Ibn Ziyad
(l.a) in which he ordered Muslim bin Aqeel (a.s) to be either killed or
expelled.
ثم دعا
مسلم بن عمرو الباهلي وكان عنده فبعثه إلى عبيد الله بعهده إلى البصرة ،
وكتب إليه معه : أما بعد ؛ فإنه كتب إلي شيعتي من أهل الكوفة يخبرونني أن
ابن عقيل بالكوفة يجمع الجموع لشق عصا المسلمين ، فسر حين تقرأ كتابي هذا
حتى تأتي أهل الكوفة فتطلب ابن عقيل كطلب الخرزة حتى تثقفه فتوثقه أو تقتله
أو تنفيه ، والسلام.)
"My
followers among the people of Kufah have written to me to inform me that
Muslim bin Aq'eel is in Kufah gathering units in order to spread
rebellion among the Muslims. Therefore, when you read this letter of
mine, go to Kufah and search for Ibn Aq'eel, as if you were looking for a
bead, until you find him. Then bind him in chains, kill him!, or expel
him."
Source: Tarikh Al-Tabari Vol 5, Pg. # 357
Before
Imam Hussain (a.s) departed for Karbala, Ibn Abbas (r.a) advised him
against it. Ibn Abbas found the invitation very suspicious as he was
aware the people of Iraq who had loyalty towards the Ahlulbayt (a.s) had
been none existent.
(أتى
الحسين عبد الله بن العباس ، فقال : يابن عم إني أتصبر ولا أصبر ، إني
أتخوف عليك في هذا الوجه الهلاك والاستئصال ، إن أهل العراق قوم غدر فلا
تقربنهم ، أقم بهذا البلد فإنك سيد أهل الحجاز ، فإن كان أهل العراق
يريدونك كما زعموا ، فاكتب إليهم فلينفوا عدوهم ، ثم أقدم عليهم فإن أبيت
إلا أن تخرج فسر إلى اليمن ، فإن بها حصونا وشعابا وهي أرض عريضة طويلة
ولأبيك بها شيعة ، وأنت عن الناس في عزلة)
“Cousin
I invoke patience, but I do not have it. I fear you destruction and
extirpation in this exercise. The Iraqis are a treacherous people. So
don’t go near them. Remain in this land, for you are the leader of the
people of Hijaz. If the Iraqis want you as they claim, write to them
that they should drive out their enemies, and then you will come to
them. If you insist on leaving, then go to Yemen. There, there are
fortresses and gorges. It is a vast distant land. Your father had Shi'ee
there and you would be remote from the people”.
Source:
Tarikh Tabari Vol 5, Pg. # 383 - 384, Al-Kamel Fi Tarikh Ibn Athir Vol
3, Pg. # 400, Al-Bedaya wa Nehaya Vol 11, Pg. # 469, Ansab al-Ashraf
Balazari, Vol 3, Pg. # 374
From this
brief introduction it can be established the Imami Shi'ee during the
Tragerdy of Karbala made the minority population. Now the question
arises as to what was the creed of these people? and to whom was their
loyalty with?. The so called 'Ahl Sunnah' have attempted to confuse
people by suggesting these people had been Sh'iees of Ali (a.s) and
thus present day Shi'ee are damned for neglecting the Imam (a.s). This
concept is against the holy Qur'an itself as it has been revealed 'That
no burdened person shall bear the burden of another', meaning every
soul shall carry its own injustices, whether disbelief or sin, and none
else shall carry its burden of sin.
If we was to exert the same logic with those of Kufa can we blame the
present day people of Hijaz for been cursed in not aiding to protect
Hamzah (a.s), Uthmaan (la), or even the martyr's of Karbalah? Or the
Prophet (saw) himself! in which many of the companions fled from battle
leaving him (saw) stranded which resulted in his face been striked.
Could anyone use such feeble logic? Inshallah'tala in our next article
we will be dealing with the creed of those who wrote the letter to the
Imam (a.s).
Subscribe to:
Posts (Atom)