خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعہ بالمقابل عقیدتی امامی شیعہ
آج کل سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی لوگوں کی جانب سے بہت سننے میں آتا ہے کہ شیعوں نے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور اہل بیت کے دیگر آئمہ کا ساتھ نہ دیا یا انہیں قتل کر دیا اور اس سلسلے میں تاریخ کی کچھ کتابوں سے حوالاجات بھی پیش کر دئے جاتے ہیں لیکن سپاہ صحابہ کے مکار ناصبی صرف عام لوگوں کو ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں، ہم شیعانِ اہل بیت کے سامنے ان باتوں اور ایسے حوالاجات رکھنے کی ان کی کبھی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا نہیں کہ پچھلے زمانے میں شیعہ ہونے کا وہ مطلب نہیں تھا جو آج ہے ، اُس وقت تو سب ہی کو بشمول جنہیں آج سنی کہا جاتا ہے ، شیعہ ہی کہا جاتا تھا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے کس شیعہ گروہ نے وہ حرکات کیں جن کا الزام ناصبی حضرات آج کل کے شیعوں پر لگا رہے ہیں۔ بس اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائیگا اور سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں کے مکروہ چہرے عیاں ہو جائینگے اور جو انشاء اللہ ہم اس آرٹیکل میں کرینگے۔
انصار ویب سائٹ کے مصنف کی پیٹ میں بھی کچھ ایسا ھی درد اٹھا
اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حسین کی مدد نہیں کی انہیں غیر شیعہ کہا جائے۔ جعفری لکھتا ہے
'ان میں سے جنہوں نے امام حسین کو کوفہ بلایا اور پھر وہ 1800 جو امام حسین کے نمائندمسلم بن عقیل کی خدمت میں آئے وہ تمام مذہبی اعتبار سے شیعہ نہیں تھے بلکہ سیاسی بنیاد پر علی کے گھرانے کے حمائتی تھے۔ یہ ایک فرق جو قدیم شیعہ تاریخ جاننے کے لئے واضح طور پر ذہن نشیں کر لینا چاہئے'
سید نا حسین کا ساتھ چھوڑنے والوں کو گھرانہِ علی کے پیروکاروں سے الگ رکھنے کا جعفری کا مقصد عیاں ہے۔ وہ اس حقیقت پر شرم سار ہے کہ یہ شیعہ ہی تھے جنہوں نے اپنے امام کو بغاوت کی قیادت کرنے کے لئے دعوت دی اور پھر ان کی مدد نہ کی۔ ہم جس چیز پر جعفری کے مذہبی اور سیاسی پیروکاروں میں فرق کرنے کو رد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود سید نا حسین نے کوفیوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ اپنا شیعہ کہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ کوفہ کو اپنا نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنی پہچان تحریک توابین کے ساتھ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تحریکِ توابین کی ابتداء میں کی گئی تقاریر سے یہ واضح ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سید نا حسین کو آنے کی دعوت دی اور بعد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں ان کا یہی نام ان کی ندامت کو ظاہر کرتا ہے۔ شیعوں کی جانب سے سید نا حسین کا ساتھ نہ دینے کے گناہ سے دور رہنے کی کوشش اور کچھ نہیں بس ایک ضعیف کوشش ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اہل سنت کو یہ نام تو بہت بعد میں ملا، جس زمانے کا ناصبی مصنف نے ذکر کیا اُس دور میں تو سب کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا جن میں آج کل کے اہل سنت بھی شامل تھے لہذا ناصبی مصنف جب پچھلےدور کا ذکر کرے تو واضح کرے کہ وہ کس شیعہ گروہ کی بات کرتا ہے؟ معروف شیعہ مخالف اسکالر محدث شاہ عبد العزیز دہلوی نے بھی تصدیق کی ہے کہ اُس وقت تمام مسلمان شیعہ ہی کہلائے جاتے تھے۔
" اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ شیعہ اولیٰ کہ فرقہ سنیہ و تفضیلیہ ہر دو کو شامل ہے پہلے شیعہ کے لقب سے مشہور تھا اور جب غلاۃ ، روافض ، زیدیوں اور اسماعیلیوں نے یہ لقب اپنے لئے استعمال کیا اور عقائد و اعمال میں ان سے شر و قباح سرزد ہونے لگے تو حق و باطل کے مل جانے کے خطرہ سے فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اپنے لئے اس لقب کو ناپسند کیا اور اس کی جگہ اھل ِ سنت وجماعت کا لقب اختیار کیا
تحفہ اثنا عشری (اردو) ، صفحہ 16 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی
آج کل اثنا عشری یا امامی اہل تشیع ماضی میں "رافضی" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیعہ کے لفظی معنی ہیں "گروہ" یا "حامی"۔ چونکہ اہلِ کوفہ نے جنگِ جمل و صفین میں علی ابن ابی طالب کا ساتھ دیا، اس لیے انہیں خالصتاً سیاسی معنوں میں"علی کا شیعہ" کہا جانے لگا یعنی حضرت علی کا حامی یا حضرت علی کا گروہ۔ اسکے مقابلے میں معاویہ کی فوج کو "شیعانِ معاویہ" یا پھر"شیعانِ عثمان" بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان سیاسی شیعانِ عثمان یا شیعانِ علی کے علاوہ لفظ شیعہ کا استعمال ایک اور گروہ کے لئے بھی ہوتا تھا جو کہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہبی اور عقیدتی معنوں میں سچا پیروکار تھا اور انہیں اللہ کی جانب سے براہ راست مقرر کردہ امام و خلیفہ بلافصل مانتا تھا اور جسے آج دنیا شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ کے نام سے جانتی ہے، جنہوں نے کبھی بھی شیخین {یعنی حضرت ابوبکر و عمر} اور حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ دیگر شیعہ گروہ جن کا اوپر ذکر ہوا وہ ایسا کرتے تھے لہٰذا آج یہ لوگ اہلِ سنت و الجماعت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
آجکل جس مذہبی و عقیدتی گروہ کو 'مامی شیعہ' کہا جاتا ہے، انہیں ماضی میں عثمانیوں کی طرف سے مذھبی معنوں میں 'رافضی' کہا جاتا تھا جبکہ لفظ 'شیعہ' سیاسی معنوں میں ہر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کہ فوجِ معاویہ کے خلاف فوجِ علی میں شامل تھا، یا جس نے معاویہ کے خلاف علی ابن ابی طالب (ع) کی حمایت کی حالانکہ مذہبی طور پر وہ شخص شیخین (پہلے دو خلفاء) کی خلافت کو جائز و برحق مانتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا یہ سیاسی استعمال ختم ہوتا گیا اور صرف مذہبی گروہ باقی رہ گیا جو اپنے آپ کو مستقل 'الشیعہ' کہتا رہا اور شیخین کی خلافت کو ماننے سے انکار کرتا رہا، جبکہ اُسکے مخالف اُسے 'رافضی' کہتے رہے۔
ناصبی حضرات کی جانب سے سیاسی شیعت کے وجود کا انکار
ناصبی حضرات ابھی تک اس بات کے انکاری ہیں کہ شیخین کی خلافت ماننے والوں کو ماضی میں کبھی شیعہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکے اس دعویٰ پر حیرت ہے کیونکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ان سیاسی شیعوں کا وجود کئی سو سالوں تک رہا ہے۔ مگر پھر بھی آج اگر سپاہ صحابہ جیسے نجس ناصبی ان سیاسی شیعوں کے وجود کے منکر ہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ماننے والوں کو ان سیاسی شیعوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں تو کوئی بھی اُنکے اس پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دے گا کہ امامی شیعوں نے حسین (ع) کو قتل کیا ہے، لہٰذا وہ اپنی شیعہ دشمنی کی دکان مسلسل چلاتے رہنے کی غرض سے اس تاریخی حقیقت سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ نہیں کرتے۔
آئیے اب ہم ثابت کرتے ہیں کہ ان خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعوں کا وجود مولا علی (ع) کے دور سے شروع ہو کر کئی سو سال تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں:
سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی
Showing posts with label Urdu. Show all posts
Showing posts with label Urdu. Show all posts
امام حسین (ع) کے جسم کو پامال کیا
وایات بتاتی ہیں کہ جن گھوڑوں سے امام حسین (ع) کے جسم کو پامال کیا گیا وہ عرب کے مشہور گھوڑے "آواجیاع" کے طور پر جانے جاتے تھے۔
ان کی خصوصیات دیگر اسٹالینز ( ایک اعلیٰ نسل کے نر گھوڑے)سے بھی اعلیٰ تھیں۔
ایک محقق نے ان گھوڑوں پہ تحقیق کی تو اس کو ایک جرمن گھوڑوں کے ماہر کی کتاب "دنیا کے سب سے مضبوط اسٹالینز" ملی، جس میں لکھا تھاکہ: اسٹالینزکی ایک خاص نسل آواجیاع کے نام سے مشہور ہیں, اور ان کی خاصیت یہ ہے کہ ان کی ایک ٹاپ کا وزن 65 کلو گرام ہوتا ہے اور اس کا مقصد اس کے نیچے آنے والی چیز کوکچلنا اور پیسنا ہوتاہے"جب کہ ایک اور تحقیق کے مطابق اس کھوڑے کی ایک ٹاپ کا وزن 125 کلو گرام ہوتا ہے۔
پھر راوی نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ابن سعد کی فوج کے ایک گھوڑ سوار نے بتایا کہ میں نے حسین کی پسلیوں کے چٹخنے اور ٹوٹنے کی آواز سنی کہ جس وقت وہ ہمارے گھوڑوں سے پامال کیے جارہے تھے۔
وہ لوگ جو ہم سے پوچھتے ہیں کہ ہم فاطمہ (ع) کے بیٹے کو کیوں روتے ہیں....؟؟؟
آ مسلمان تجھے بتاؤں ہم 1400 سال سے حسین (ع) کو کیوں رو رہے ہیں؟ ہماری آنکھیں خشک کیوں نہیں ہوتیں؟ ہماری آہیں تھمتیں کیوں نہیں؟ ہمارے چہرے دکھ کی تصویریں کیوں ہیں؟ ہم سیاہ پوش کیوں ہیں...؟؟؟
تاریخ بتاتی ہے کہ 10 گھوڑوں نے امام حسین (ع)کو کچلا۔ ہر گھوڑے کی 4*125کلو گرام کی ٹاپیں تھیں یعنی ہر گھوڑے کئ 500 کلو کی ٹاپیں اور اس طرح کے دس گھوڑوں کی ٹاپوں نے فاطمہ (ع) کے بیٹےکے جسد اطہر کو کچل دیا،یہ مسلمانوں نے رسول اللہ (ص) کے اس نواسے کے ساتھ کیا جس کو رسول اللہ (ص) کی بیٹی نے نازوں سے پالا تھا.
امام زین العابدین (ع) نے فرمایا کہ: "میرے بابا کا سینہ کچل کر ان کی پشت سے لگ گیا تھا۔
جب میں ان کو دفن کرنے آیا تو ان کے جسم کا ایک حصہ اٹھاتا تھا تو دوسرا حصہ گر جاتا تھا۔
وا حسینا
وا غریبا
قاتلان ِامام حسین کون؟
یسے تمام نواصب یہ جھوٹ پھیلاتے آئے ہیں کہ امام حسین کے قاتل شیعان ِ اھل
بیت (ع) ھی تھے۔ اس آرٹیکل میں ھم اس جھوٹے دعوٰی میں موجود تمام خامیوں پر
روشنی ڈالینگے۔ اس موضوع کے متعلق ناصبی حضرات کے دٰعوں کا خلاصہ یہ ہے۔
1. شیعوں نے امام حسین (ع) کو خطوط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں اور اپنا امام تسلیم کر سکیں۔
2. امام حسین (ع) نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کی صحیح صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔
3. شیعوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ذریعے امام حسین کی بیعت کی۔
4. عبیداللہ ابن ذیاد کی کوفہ آمد پر انہی شیعوں نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔
5. شیعہ امام حسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے اُن کا قتل ہوا۔
ھم نے اس آرٹیکل میں تمام تاریخی شواھد کو مد ِنطر رکھتے ہوے اھل ِکوفہ کے اصل عقیدہ کو بیان کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا ھے کہ سید الشھداء اور ان کے رفقاء کے اصل قاتل کون تھے اور آج کون اان قاتلان کے پیروکار ہیں۔
1. شیعوں نے امام حسین (ع) کو خطوط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں اور اپنا امام تسلیم کر سکیں۔
2. امام حسین (ع) نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کی صحیح صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔
3. شیعوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ذریعے امام حسین کی بیعت کی۔
4. عبیداللہ ابن ذیاد کی کوفہ آمد پر انہی شیعوں نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔
5. شیعہ امام حسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے اُن کا قتل ہوا۔
ھم نے اس آرٹیکل میں تمام تاریخی شواھد کو مد ِنطر رکھتے ہوے اھل ِکوفہ کے اصل عقیدہ کو بیان کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا ھے کہ سید الشھداء اور ان کے رفقاء کے اصل قاتل کون تھے اور آج کون اان قاتلان کے پیروکار ہیں۔
گریہ و ماتم کا تحقیقی جائزہ
Girya-o-Matam ka tehqeeqa jaeza
گریہ و ماتم کا تحقیقی جائزہ
Author : Dr. Mubarak Ali Jafri - ڈاکٹر مبارک علی جعفری
Translator :
Language : Urdu - اردو
گریہ و ماتم کا تحقیقی جائزہ
Author : Dr. Mubarak Ali Jafri - ڈاکٹر مبارک علی جعفری
Translator :
Language : Urdu - اردو
معرفت ماتم و فدک
Marifat-e-Matam-o-Fidak معرفت ماتم و فدک Author : Molana Abdul Hafeez Haidri Kanpuri - مولانا عبدالحفیظ حیدری کانپوری Translator : Language : Urdu - اردو
Matam ( Self - beating ) of Prophet (SAWA) and his Companions
Hazrat Mohammad(SAWA) ka Matam
Hazrat Hamza's Matam
Hazrat Ayesha's Matam
Narrated Abudullah Narrated My father Narrated Yaqoob Narrated My Father From Ibn Ishaq He Said Narrated To Me Yahya Ibn Abbad Ibn Abdilleh Ibn Al-zubair From His Father Abbad He Said I Heard Ayesha Saying: Rasool Allah Died Between My Chest And ThroAt ... So Due To My Young Age And "sufhi" That Rasool Allah Died In My Lap So I Put His Head On A Pillow And Stood Up With Women And Started Doing Iltidam( an arabic word meaning hitting the face and chest ) And Hitting My Face(Musnad Ahmad Bin Hanbal)
Hazrat Usman Ke Liye Shaamiyon ni Girya Kiya
Khalid Bin Waleed ke Liye Matam Hua !!
Hazrat Owaise Qarni Ka Matam
Reference Book : Tazkeratul Auliya bu Shaikh Fariddudin Ataar
Sahaba wore Black cloths on the Martrydom of Usman( Sahaba ne Hazrat Usmaan ke Inteqaal per Kaala( Black) Kapda Pehna)
آ دیکھ میرے غازیؑ , اونچا ہے علم تیرا
آ دیکھ میرے غازیؑ , اونچا ہے علم تیرا
دل سینے میں جب تک ہے , بھولے گا نہ غم تیرا
زینبؑ کی دعا بن کر , ایک وقت وہ آئے گا
ہر گھر پہ سجا ہو گا , عبّاسؑ علم تیرا
آ جاتی ہیں زہراؑ بھی , زینبؑ بھی زیارت کو
جب آٹھ محرّم کو , اٹھتا ہے علم تیرا
تابوت جب اٹھتا ہے , شبیرؑ کا اے غازیؑ
تابوت کے آگے بھی , چلتا ہے علم تیرا
وہ کون سے صدمے تھے , شہ ٹوٹ گئے جس سے
اک درد تھا زینبؑ کا , اور دوسرا غم تیرا
پرچم کا پھریرا تھا , یا آس تھی زینبؑ کی
زینبؑ کے کلیجے سے , غم کیسے ہو کم تیرا
بازار میں زنداں میں , دربار میں ہر لمحہ
زینبؑ کی تو سانسوں پہ , تھا نام رقم تیرا
جب بہہ گیا سب پانی , تب سانس تیری ٹوٹی
تھا سینے کے اندر یا , مشکیزے میں دم تیرا
آواز تیری سرور , شبّیرؑ سے وابستہ
عبّاسؑ سے وابستہ , ریحان قلم تیرا
دل سینے میں جب تک ہے , بھولے گا نہ غم تیرا
زینبؑ کی دعا بن کر , ایک وقت وہ آئے گا
ہر گھر پہ سجا ہو گا , عبّاسؑ علم تیرا
آ جاتی ہیں زہراؑ بھی , زینبؑ بھی زیارت کو
جب آٹھ محرّم کو , اٹھتا ہے علم تیرا
تابوت جب اٹھتا ہے , شبیرؑ کا اے غازیؑ
تابوت کے آگے بھی , چلتا ہے علم تیرا
وہ کون سے صدمے تھے , شہ ٹوٹ گئے جس سے
اک درد تھا زینبؑ کا , اور دوسرا غم تیرا
پرچم کا پھریرا تھا , یا آس تھی زینبؑ کی
زینبؑ کے کلیجے سے , غم کیسے ہو کم تیرا
بازار میں زنداں میں , دربار میں ہر لمحہ
زینبؑ کی تو سانسوں پہ , تھا نام رقم تیرا
جب بہہ گیا سب پانی , تب سانس تیری ٹوٹی
تھا سینے کے اندر یا , مشکیزے میں دم تیرا
آواز تیری سرور , شبّیرؑ سے وابستہ
عبّاسؑ سے وابستہ , ریحان قلم تیرا
تمائچہ بر رخسار ذاکر نائیک
آپ کوڈاکٹر نالائق کا یزید لعین کے لیے رضی اللہ کہنا یاد ہوگا اور ثبوت میں یہ کہا تھا کہ امام غزالی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی رضی اللہ کہا ہےان پر بھی کفر کا فتوی لگائے اگر مجھ پر لگانا ہے.. تو ہم نے امام غزالی کے متعلق تو اپنے دوسرے تھریڈ میں جواب دے دیا ہے باقی رہا حافظ ابن حجر عسقلانی تو ذاکر نائیک صاحب ہم آپ کو حافظ ابن حجر عسقلانی کی مندرجہ ذیل روایت پڑھنے کا مشورہ دے گئے
یعہ ڈیفنس کا ڈاکٹر ذاکرنایئک کے منہ پر تمائچہ
یزید اور اسکے حامی امام ابن حجر عسقلانی کی نظر میں
اہل ِسنت کے علم الرجال اور صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام ابن حجر عسقلانی نے جو کہا ہے اس کے بعد سپاہ ِیزید اور ذاکرنالائق جیسے نواصب پر حیرت ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی کتاب 'الامتاع باالاربعین' ص 96 پر تحریر کرتے ہیں:
وأما المحبة فيه والرفع من شأنه فلا تقع إلا من مبتدع فاسد الاعتقاد فإنه كان فيه من الصفات ما يقتضي سلب الإيمان
یزید سے محبت اور اس کی ثناء سوائے فاسد العقیدہ شخص کے کوئی اور نہیں کرسکتا کیونکہ یزید کی صفات ہی ایسی تھیں کہ اس سے محبت کرنے والے سلب الایمان ہونے کے لائق ہیں۔
میں ڈاکڑ ذاکر نالائق سے پوچھتا ہوں کے کیا آپ کو یہ روایت بیان کرنا یاد نہیں رہی...... ابن حجر عسقلانی کے عقیدے کے مطابق تو آپ بھی فاسد العقدہ ہوئے......
حسین تم نہیں رہے
حسین تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا
مدعینہ و نجف سے کربلا تک ایک سلسلہ
ادھر جو آ گیا وہ پھر اِدھر اُدھر نہیں رہا
صدائے استغاہء حسین کے جواب میں
جو حرف بھی رقم ہوا وہ بے اثر نہیں رہا
صفیں جمیں تو کربلا میں بات کھل کے آگئ
کوئ بھی حیلہء نفاق کارگر نہیں رہا
بس ایک نام---اُنکا نام اور اُن کی نسبتیں
جز انکے پھر کسی کا دھیان عمر بھر نہیں رہا
کوئ بھی ہو کسی طرف کا ہو کسی نسب کا ہو
جو تم سے منحرف ہوا وہ معتبر نہیں رہا
امام حسین کی مکہ کی طرف روانگی
جرت رسول اکرم سے ہجرت کا آغاز ہوا لیکن امام حسین -کی حرکت و سفر سے اسلام
کی اصلاح و رتبدیلی کے ایک نئے باب اور تاریخ کا آغاز ہوا ہے۔
امام حسین کے اس سفر کا مقصد امت ِمحمدی کی اصلاح تھا۔ آپ محمد ابن حنفیہ
کو اپنی وصیت تحریری طور پر لکھ کر دیتے ہیں تاکہ رہتی دنیا میں حسین ابن
علی کی یہ وصیت باقی رہ جائے اور من مانی کرنے والے ،کربلا کے من گھڑت
مقاصد بیان کرنے والے اور خواہشات نفسانی کی پیرو ی کرنے والے افراد کو منہ
توڑ جواب دیا جائے کہ حسین ابن علی نے کس وجہ سے سفر کیا تھا:
''انماخرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی،ارید ان آمر بالمعروف و انہی عن المنکر''
''میں تو صرف اس لےے نکل رہا ہو ں کہ اپنے نانا محمد رسول اللہ کی امت کی
اصلاح کیلئے کوئی قد م اٹھاسکوں ،میں اپنے سفر سے چاہتا ہوں کہ لوگوں کو
اچھائی اور نیکیوں کا حکم دوں اور بری باتوں سے روکوں۔''
امام حسین -کے اس جملے سے جو تربیتی نکات ملتے ہیںوہ مندرجہ ذیل ہیں:
معصوم امام بھی اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے عمل انجام دیتا ہے اورعملی اقدامات کرتا ہے۔
معصوم امام کا مقصد صرف اور صرف اصلاح امت تھا۔
''اصلاح'' کا عمل کسی بھی زمانے میں واجب ہو سکتا ہے اور اس کیلئے امام جیسی ہستی کو بھی اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔
طلب کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ انسان کا کام اپنی ذمہ داری کو انجام دے۔
''لطلب الاصلاح''کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ انسان کا کام اپنی ذمہ داری کی صحیح طو ر پر ادائیگی کیلئے قدم اُٹھانا ہے۔
جب امام عالی مقام روانگی کے لئے تیار ہوئے تو رات کے وقت اپنی والدہ گرامی
حضرت فاطمہ زہرا اور بھائی امام حسن کی تربتوں پر گئے۔ ان سے وداع کیا اور
صبح کے وقت گھر پہنچے تاکہ روانہ سفر ہو سکیں۔
ابن قولویہ نے سندِ معتبر سے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ جب امام
حسین نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو بنی ہاشم کی عورتیں اکٹھی ہوگئیں
اور نوحہ و زاری کی صدائیں بلند ہوئیں۔ امام مظلوم نے ان کی بے قراری
اورنالہ و زاری کو دیکھا تو فرمایا :میں تمہیں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں
کہ صبر کرو اورجزع فزع اور بے تابی سے گریز کرو۔
انہوں نے کہا : اے ہمارے سید و سردار! ہم کس طرح خود کو گریہ و زاری سے
روکیں حالانکہ آپ جیسی بزرگوار ہستی ہم بے کسوں کو تنہا چھوڑ کر ہمارے
درمیان سے جا رہی ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ یہ منافقین آپ کو کس حال تک
پہنچاتے ہیں۔ پس نوحہ و سوگواری کو کس دن کے لئے اٹھا رکھیں۔ خدا کی قسم !
یہ دن ہمارے لئے ایسے ہی ہے کہ جیسے رسول خدا اس دنیا سے رخصت ہوگئے
ہوں۔اور اس دن کی طرح ہے جس دن حضرت فاطمہ شہیدہوئیں اور اس دن کی طرح ہے
جس دن امیرالمومنین نے شہادت پائی۔اے مومن دلوں کے محبوب اور اے بزرگواروں
کی یادگار !!بارگاہ خدا میں ہماری جانیں آپ پر نثار=(جلاء العیون /٣٥٣)
اپنی والدہ گرامی کی قبر پر وداع
امام رات کے درمیانی عرصے میں اپنی والدہ گرامی کی قبر پر وداع کے لئے گئے
اور بعض کتب میں مذکور ہے کہ اپنی والدہ کو سلام کیا '' اَلسَّڈمُ عَلَیکُم
یَا اُمَّاہ '' اے مادر گرامی! آپ پر میرا سلام ہو۔ آپ کا حسین آپ سے وداع
کے لئے حاضر ہے اور یہ اس کی آخری زیارت ہے۔ اچانک جناب فاطمہ کی قبر
مبارک سے آواز آئی:عَلَیْکَ السَّلاٰمُ یٰامَظْلُوْمَ الْأُمِّ
وَیٰاشَہِیْدَ الْأُمِّ َویٰاغَرِیْبَ الْأَمِّ ''اے ماں کے مظلوم ( بیٹے
) اے ماں کے شہید ( بیٹے ) اور اے ماں کے غریب (بیٹے ) میرا بھی آپ پر بھی
سلام ہو''۔
پھر امام پرحالت گریہ طاری ہوگئی کہ دوبارہ کلام کرنے کی طاقت نہ رہی(مہیج الاحزان /٢٤م١)
ملائکہ سے ملاقات
شیخ مفید اپنی سند سے امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
جس وقت امام حسین رات کے وقت مدینہ سے روانہ ہوئے 'ملائکہ کا ایک گروہ
،صفیں باندھے، جنگی ہتھیارسجائے ، بہشتی گھوڑوں پر سوار آپ کی خدمت میں
حاضر ہوا اور وہ سب آپ کو سلام کرنے کے بعد کہنے لگے :
''اے اپنے جد ، باپ اور بھائی کے بعد مخلوقِ خدا پرحجتِ خدا ، خدا وند
متعال نے کئی مواقع پرہمارے وسیلہ سے آپ کے جدِنامدار کی حمایت فرمائی ،اور
اب بھی ہمیں آپ کی امداد کے لئے بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: میری اور تمہاری
وعدہ گاہ وہ جگہ ہے جسے خداوند متعال نے میری شہادت اوردفن کا مقام قرار
دیا ہے ،جو کربلا ہے۔جب میں اس جگہ پہنچوں تو تم میرے پاس آنا''۔
Subscribe to:
Posts (Atom)