Skip to main content

حسین تم نہیں رہے

حسین تم نہیں رہے تمہارا گھر نہیں رہا
مگر تمہارے بعد ظالموں کا ڈر نہیں رہا

مدعینہ و نجف سے کربلا تک ایک سلسلہ
ادھر جو آ گیا وہ پھر اِدھر اُدھر نہیں رہا

صدائے استغاہء حسین کے جواب میں
جو حرف بھی رقم ہوا وہ بے اثر نہیں رہا

صفیں جمیں تو کربلا میں بات کھل کے آگئ
کوئ بھی حیلہء نفاق کارگر نہیں رہا

بس ایک نام---اُنکا نام اور اُن کی نسبتیں
جز انکے پھر کسی کا دھیان عمر بھر نہیں رہا

کوئ بھی ہو کسی طرف کا ہو کسی نسب کا ہو
جو تم سے منحرف ہوا وہ معتبر نہیں رہا

Comments