امام حسین کی مکہ کی طرف روانگی
جرت رسول اکرم سے ہجرت کا آغاز ہوا لیکن امام حسین -کی حرکت و سفر سے اسلام
کی اصلاح و رتبدیلی کے ایک نئے باب اور تاریخ کا آغاز ہوا ہے۔
امام حسین کے اس سفر کا مقصد امت ِمحمدی کی اصلاح تھا۔ آپ محمد ابن حنفیہ
کو اپنی وصیت تحریری طور پر لکھ کر دیتے ہیں تاکہ رہتی دنیا میں حسین ابن
علی کی یہ وصیت باقی رہ جائے اور من مانی کرنے والے ،کربلا کے من گھڑت
مقاصد بیان کرنے والے اور خواہشات نفسانی کی پیرو ی کرنے والے افراد کو منہ
توڑ جواب دیا جائے کہ حسین ابن علی نے کس وجہ سے سفر کیا تھا:
''انماخرجت لطلب الاصلاح فی امۃ جدی،ارید ان آمر بالمعروف و انہی عن المنکر''
''میں تو صرف اس لےے نکل رہا ہو ں کہ اپنے نانا محمد رسول اللہ کی امت کی
اصلاح کیلئے کوئی قد م اٹھاسکوں ،میں اپنے سفر سے چاہتا ہوں کہ لوگوں کو
اچھائی اور نیکیوں کا حکم دوں اور بری باتوں سے روکوں۔''
امام حسین -کے اس جملے سے جو تربیتی نکات ملتے ہیںوہ مندرجہ ذیل ہیں:
معصوم امام بھی اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے عمل انجام دیتا ہے اورعملی اقدامات کرتا ہے۔
معصوم امام کا مقصد صرف اور صرف اصلاح امت تھا۔
''اصلاح'' کا عمل کسی بھی زمانے میں واجب ہو سکتا ہے اور اس کیلئے امام جیسی ہستی کو بھی اپنا گھر بار اور وطن چھوڑنا پڑتا ہے۔
طلب کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ انسان کا کام اپنی ذمہ داری کو انجام دے۔
''لطلب الاصلاح''کا لفظ یہ بتا رہا ہے کہ انسان کا کام اپنی ذمہ داری کی صحیح طو ر پر ادائیگی کیلئے قدم اُٹھانا ہے۔
جب امام عالی مقام روانگی کے لئے تیار ہوئے تو رات کے وقت اپنی والدہ گرامی
حضرت فاطمہ زہرا اور بھائی امام حسن کی تربتوں پر گئے۔ ان سے وداع کیا اور
صبح کے وقت گھر پہنچے تاکہ روانہ سفر ہو سکیں۔
ابن قولویہ نے سندِ معتبر سے امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ جب امام
حسین نے مدینہ سے نکلنے کا ارادہ کیا تو بنی ہاشم کی عورتیں اکٹھی ہوگئیں
اور نوحہ و زاری کی صدائیں بلند ہوئیں۔ امام مظلوم نے ان کی بے قراری
اورنالہ و زاری کو دیکھا تو فرمایا :میں تمہیں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں
کہ صبر کرو اورجزع فزع اور بے تابی سے گریز کرو۔
انہوں نے کہا : اے ہمارے سید و سردار! ہم کس طرح خود کو گریہ و زاری سے
روکیں حالانکہ آپ جیسی بزرگوار ہستی ہم بے کسوں کو تنہا چھوڑ کر ہمارے
درمیان سے جا رہی ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ یہ منافقین آپ کو کس حال تک
پہنچاتے ہیں۔ پس نوحہ و سوگواری کو کس دن کے لئے اٹھا رکھیں۔ خدا کی قسم !
یہ دن ہمارے لئے ایسے ہی ہے کہ جیسے رسول خدا اس دنیا سے رخصت ہوگئے
ہوں۔اور اس دن کی طرح ہے جس دن حضرت فاطمہ شہیدہوئیں اور اس دن کی طرح ہے
جس دن امیرالمومنین نے شہادت پائی۔اے مومن دلوں کے محبوب اور اے بزرگواروں
کی یادگار !!بارگاہ خدا میں ہماری جانیں آپ پر نثار=(جلاء العیون /٣٥٣)
اپنی والدہ گرامی کی قبر پر وداع
امام رات کے درمیانی عرصے میں اپنی والدہ گرامی کی قبر پر وداع کے لئے گئے
اور بعض کتب میں مذکور ہے کہ اپنی والدہ کو سلام کیا '' اَلسَّڈمُ عَلَیکُم
یَا اُمَّاہ '' اے مادر گرامی! آپ پر میرا سلام ہو۔ آپ کا حسین آپ سے وداع
کے لئے حاضر ہے اور یہ اس کی آخری زیارت ہے۔ اچانک جناب فاطمہ کی قبر
مبارک سے آواز آئی:عَلَیْکَ السَّلاٰمُ یٰامَظْلُوْمَ الْأُمِّ
وَیٰاشَہِیْدَ الْأُمِّ َویٰاغَرِیْبَ الْأَمِّ ''اے ماں کے مظلوم ( بیٹے
) اے ماں کے شہید ( بیٹے ) اور اے ماں کے غریب (بیٹے ) میرا بھی آپ پر بھی
سلام ہو''۔
پھر امام پرحالت گریہ طاری ہوگئی کہ دوبارہ کلام کرنے کی طاقت نہ رہی(مہیج الاحزان /٢٤م١)
ملائکہ سے ملاقات
شیخ مفید اپنی سند سے امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
جس وقت امام حسین رات کے وقت مدینہ سے روانہ ہوئے 'ملائکہ کا ایک گروہ
،صفیں باندھے، جنگی ہتھیارسجائے ، بہشتی گھوڑوں پر سوار آپ کی خدمت میں
حاضر ہوا اور وہ سب آپ کو سلام کرنے کے بعد کہنے لگے :
''اے اپنے جد ، باپ اور بھائی کے بعد مخلوقِ خدا پرحجتِ خدا ، خدا وند
متعال نے کئی مواقع پرہمارے وسیلہ سے آپ کے جدِنامدار کی حمایت فرمائی ،اور
اب بھی ہمیں آپ کی امداد کے لئے بھیجا ہے۔ آپ نے فرمایا: میری اور تمہاری
وعدہ گاہ وہ جگہ ہے جسے خداوند متعال نے میری شہادت اوردفن کا مقام قرار
دیا ہے ،جو کربلا ہے۔جب میں اس جگہ پہنچوں تو تم میرے پاس آنا''۔
ملائکہ نے عرض کیا: اے حجتِ خدا ! آپ جوچاہتے ہیں حکم فرمائیں کہ ہم آپ کی
اطاعت پر مامور ہیں اور آپ دشمن سے خوف زدہ ہیں تو ہم آپ کے ہمراہ چلتے
ہیں۔
آپ نے فرمایا: دشمن سے مجھے اس وقت تک نقصان نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ میں اپنی شہادت گاہ تک نہ پہنچ جائوں۔
جنات کی ملاقات
مومن جنات کے گروہ بھی امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : آقا ! ہم
آپ کے شیعہ اور دوست ہیں۔ آپ جو چاہیں ہمیں حکم دیں۔ اگر آپ حکم دیں تو ہم
آپ کے تمام دشمنوں کو اسی گھڑی ہلاک کردیں اور اس سے پہلے کہ آپ روانہ ہوں
ہم آپ کے حکم کوبجالائیں۔
امام نے فرمایا : خدا تمہیں نیک صلہ عطا کرے ، کیا تم نے میرے نانا پرنازل ہونے والے قرآن مجید میں نہیں پڑھا کہ آپ فرماتے ہیں :
أَیْنَ مٰا تَکُونُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِی بُرُوْجٍ مُشَیَّدَةٍـ(سورۂ نساء آیہ ٧٨)
''تم جہاں بھی ہوگے 'اگرچہ مضبوط محلوں میں بھی ہوتو موت تم تک آ پہنچے گی (یعنی موت سے رہائی کے لئے کوئی چارہ کار نہیں ) ''
نیز خدا وند متعال فرماتا ہے:
قُلْ لَوْ کُنْتُمْ فِی بُیْوتِکُمْ لَبَرَزَالَّذِیْنَ کُتِبَ عَلَیْہِمُ الْقَتْلُ اِلٰی مَضٰاجِعِہِمْ=(سورہ آل عمران ،آیہ ،١٥٤)
''کہہ دو ( اے محمد ۖ ) اگرتم اپنے گھروں میں بھی ہو تو پھر بھی مقدر میں قتل ہونا ہے''۔
(اس کے علاوہ) اگر میں اپنے شہر اور وطن میں رہوں تو ان بد بختوں کا امتحان کس وسیلہ سے لیا جائے گا۔
جنات نے کہا : اے حبیب خدا اور حبیب خدا کے بیٹے ! خدا کی قسم اگر آپ کے
حکم کی اطاعت ہم پرواجب نہ ہوتی اور اس کی مخالفت ناجائز نہ ہوتی تو ہم آپ
کے تمام دشمنوں کو اس سے پہلے کہ وہ آپ تک دسترس حاصل کریں ، قتل کردیتے۔
امام نے فرمایا : خدا کی قسم ! اس کام پر مجھے تم سے زیادہ قدرت حاصل ہے ( لیکن یہ تو ایک مرحلۂ امتحان ہے )
''لِیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ بَیِّنَةٍ وَیَحْیٰی مَنْ حَیَّی عَنْ بَیِّنَةٍ ''
''تاکہ جس نے ہلاک ہونا ہے وہ تمام حجت کے بعد ہلاک ہو جائے اور جو کوئی
حیاتِ ابدی کے لائق ہے وہ تمام حجت کے ساتھ ہمیشہ کی زندگی پالے ''۔ (سورہ
انفال ،آیہ ٤٢)
(بحارالانوار : ٤٤/٣٣٠لہوف /٦٦،جلاء العیون /٣٥٤)
جب امام حسین عازم سفر ہوئے تو آپ کے بھائی محمد حنفیہ آپ کے پاس آئے اور
عرض کیا : اے بھائی ! آپ میرے نزدیک تمام مخلوق سے محبوب ترین اور بزرگوار
ترین ہیں۔ میں کسی شخص کوبھی نصیحت کرنے سے دریغ نہیں کرتا اور آپ اس کے
لیے ہرشخص سے زیادہ سائشتہ تر ہیں۔ کیونکہ آپ مجھ سے ہیں اور میری جان ،
روح اور آنکھیں ہیں اور خاندان کا بزرگ ہونے کی وجہ سے آپ کی اطاعت مجھ پر
واجب ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مجھ پر فضیلت دی ہے اور آپ کو بہشت
کے سرداروں میں سے قرار دیا ہے۔
آپ مکہ چلے جائیں ، اگر وہاں آرام رہے تو بہت بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت
پیش آئے تو یمن کے شہروں کی طرف نکل جائیے گا کہ وہاں کے لوگ آپ کے نانا ۖ
اور باپ کے دوست ہیں۔
ھُمْ أَرْأَفُ النّٰاسِ وَأَرَقُّھُمْ قُلُوبًا وَأَوْسَعُ النّٰاسِ بِڈدًا
''وہ لوگ مہربان نیک دل اور بڑے شہروں کے رہنے والے ہیں۔اگر تم وہاں آسودگی
محسوس کرو تو وہیں ٹھہرنا ورنہ بیابانوں ، دروں اور پہاڑوں کی طرف چلے
جانا اور ایک شہر سے دوسرے شہر نکل جانا تاکہ یہ دیکھ لو کہ (ان) لوگوں کا
معاملہ کیسے انجام پاتاہے اور خدا ہمارے اور فاسقوں کے درمیان فیصلہ کردے
''۔
امام حسین نے فرمایا : اے بھائی ! خدا کی قسم اگردنیا میں میرے لئے کوئی
بھی پناہ گاہ اور ملجا و مامن نہ ہو تو میں پھر بھی یزید کی بیعت نہیں کروں
گا۔ پس محمد حنفیہ خاموش ہوگئے اور گریہ کرنے لگے۔ آپ بھی کچھ دیر روتے
رہے' پھر فرمایا :
اے بھائی ! خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔ آپ نے میری خیر خواہی کی اور درست
مشورہ دیا۔ ابھی میں مکہ کی طرف روانہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہوں ، میں '
میرے بھائی' بھتیجے اور شیعہ کہ جن کا امر میرا امر ہے اور جن کی رائے میری
رائے ہے 'میرے ساتھ اس سفر کے لئے تیار ہیں۔آپ اگر چاہتے ہیں تو مدینہ میں
رہیں اور ہمارے دیدہ بان بن جائیں اور دشمنوں کے امور میں سے کوئی بات ہم
سے پوشیدہ نہ رکھیں۔
محمد حنفیہ کے نام سفارش نامہ
پھر آپ نے کاغذ اور قلم دوات منگوا کر ان کے لئے یہ سفارش نامہ تحریر فرمایا :
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ھٰذٰا مٰا أَوْصٰی بِہِ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیَّ بْنِ اَبِی طٰالِبْ
اِلٰی أَخِیْہِ مُحَمَّدٍ الْمَعْرُوْفِ بِابْنِ الْحَنَفِیَّةِ اِنَّ
الْحُسَیْنَ یَشْہَدُ أَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ
شَرِیْکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ جٰائَ بِالْحَقِّ
مِنْ عِنْدِ الْحَقِّ ، وَاَنَّ الْجَنَّةَ وَالنّٰارَ حَقّ وَاَنَّ
السّٰاعَةَ آتِیَہ لاٰرَیْبَ فِیْہٰا وَأَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی
الْقُبُورِ ، وَاَنِّی لَمْ اَخْرُجْ أَشَرًّا وَلاٰبَطَرًا وَلاٰ
مُفْسِدًا وَلاٰ ظَالِمًا وَاِنَّمٰا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فِی
اُمَّةِ جَدِّیْ ۖ اُرِیْدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَأَنْہٰی عَنِ
الْمُنْکَرِ وَأَسِیْرَ بِسِیْرَةِ جَدِّی وَأَبِی عَلِّی ابْنِ اَبِی
طٰالِبٍ عَلیہِ السَّلاٰمُ فَمَنْ قَبِلَنِی بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللّٰہُ
أَوْلٰی بِالْحَقِّ وَمَنْ رَدَّ عَلَیَّ ھٰذٰا ،أَصْبِرُ حَتّٰی
یَقْضِیَ اللّٰہُ بَیْنِی وَبَیْنَ الْقَوْمِ بِالْحَقِّ وَھُوَ خَیْرُ
الْحٰاکِمِیْنَ وَھٰذِہِ وَصِیَّتِی یٰااَخِی اِلَیْکَ وَمٰا تَوفِیْقِی
اِلاّٰ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْہِ أُنِیْبُ
آپ نے واحدانیتِ خدا کی شہادت !رسالتِ محمدۖ اور بہشت اوردوزخ کے اقرار کے بعد رقم فرمایا :
''میں تکبر ، سرکشی ، حق کو قبول نہ کرنے ، فساد پھیلانے اور ظلم کرنے کے
ارادے سے نہیں نکلاہوں'بلکہ اپنے جد کی امت کی (خرابیوں ) کی اصلاح کے لئے
نکلا ہوں۔ میرا مقصد لوگوں کو اچھے اور پسندیدہ کاموں کی طرف دعوت دینا اور
انہیں برائیوں سے روکنا اور اپنے جد رسولِۖ خدا اوروالد (حضرت علی ) کی
سیرتوں کی پیروی کا حکم دیناہے۔ جو کوئی مجھے حق پر تسلیم کرے تو خداحق کے
لئے زیادہ سزا وار ہے اور جو کوئی میری تردید کرے تو میں صبر کروں گا'تا
وقتیکہ خدا میرے اور اس قوم کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور خدا سب
سے بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ اے بھائی ! یہ ہے میری آپ کے لئے وصیت ،
اور میں ( ہر کام میں ) خدا سے توفیق طلب کرتاہوں اور اس پر توکل کرتاہوں
اور میری باز گشت اسی کی طرف ہے''
امام نے اس تحریر پر اپنی مہر لگائی اور اسے اپنے بھائی محمد کے سپرد کیا
اور اس سے وداع کیا اورآدھی رات کے وقت ( مدینہ سے ) روانہ ہو گئے ''۔
(بحارالانوار : ٤٤/٣٢٩،مقتل خوارزمی : ١/١٨٧ف ٩)
جب امام حسین مدینہ سے روانہ ہونے لگے تو جناب ام سلمہ نے عرض کیا : میرے
بیٹے ! عراق کی جانب اپنے سفر سے مجھے محزون نہ کرو کیونکہ میں نے آپ کے
نانا ۖسے سن رکھا ہے کہ وہ فرماتے تھے : میرے بیٹے حسین کو عراق کے ایک
مقام پر کہ جسے کربلا کہتے ہیں شہید کردیاجائے گا۔
امام نے فرمایا : اماں جان ! خدا کی قسم میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں
لیکن ناچار قتل کیا جائوں گا اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔بخدا میں وہ
دن بھی جانتا ہوں ہوں کہ جس دن میں قتل کیا جائوں گا اور اپنے قاتل کو بھی
پہنچانتا ہوں اور مجھے وہ جگہ بھی معلوم ہے کہ جس میں دفن کیا جائوں گا اور
ان لوگوں کو بھی جانتاہوں جو میرے خاندان ، عزیزوں اور شیعوں میں سے قتل
کئے جائیں گے۔ اور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اپنی قبر کی نشان دہی کردوں۔
اس کے بعد آپ نے کربلا کی طرف اشارہ کیا۔ زمین پست ہوگئی اور ام سلمہ نے
لشکرگاہِ امام کے پڑائو کی جگہ ، مقامِ شہادت اور آرام گاہ کو دیکھا۔ بی بی
نے یہ دیکھ کر سخت گریہ کیا اور آپ کے معاملے کو سپرد خدا کردیا۔
امام نے فرمایا :اے اماں جان !
قَدْ شٰائَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَنْ یَراٰنِی مَقْتُولاً مَذْبُوحًا
ظُلْمًا وَعُدْوَانًا، وَقَدْ شٰائَ اَنْ َیریٰ حَرَمِی وَرَھْطِی
وَنِسٰائِی مُشَرَّدِیْنَ وَاَطْفٰالِی مَذْبُوحِیْنَ مَظْلُوْمِیْنَ
مَاسُورِیْنَ مُقَیَّدِیْنَ وَھُمْ یَسْتَغِیثُونَ فَلاٰیَجِدُوْنَ
نٰاصِرًا وَلاٰ مُعِیْنًا
''خدا وند متعال چاہتا ہے کہ مجھے ظلم وستم سے قتل ہوتا دیکھے ،اور میرے
اہل و عیال ،اہل خاندان اور مخدرات کو دربدر پھرتاہوا پائے۔ اور میرے بچوں (
میں سے بعض ) کو سربریدہ اور مظلوم اور ( بعض کو ) اسیر اور زنجیر و بند
میں قید دیکھے۔ اس حال میں کہ وہ استغاثہ کریں تو کسی کو مدد گار اور فریاد
رس نہ پائیں ''۔(بحارالانوار : ٤٤/٣٣١،معالی السبطین :١/١٣٣)
پھر امام حسین مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوگئے۔اس وقت آپ یہ آیۂ مبارکہ تلاوت کر رہے تھے
فَخَرَجَ مِنْہٰا خٰائِفاً یَتَرَقَّبُ قٰالَ رَبِّ نَجِّنِی مِنْ الْقَومِ الْظّٰالِمِیْنَ
''( حضرت موسیٰ شہرِ مصر سے ) خوف اور پلٹ پلٹ کر راستے کی طرف دیکھتے ہوئے
(شہر مدین کی طرف ) روانہ ہوگئے اورآپ کہتے تھے : بارِ الہا ! مجھے اس
ظالم قوم کے شرسے نجات دے''۔ (سورۂ قصص آیہ ٢١)
ریاض القدس : ١/١٧٩میں اضافہ ہے کہ جناب سکینہ فرماتی ہیں :
مٰا کٰانَ مِنْ أَھْلِ بَیْتٍ أَشَدُّ خَوفًا مِنّٰا حِیْنَ خَرَجْنٰا مِنَ الْمَدِیْنَةِ
''کوئی اہلِ بیت ہماری طرح خوف زدہ نہیں تھا جس وقت ہم مدینہ سے روانہ ہوئے ''۔
ہم نے معروف اور بڑے راستے کو اپنایا۔ امام کے اہل خاندان نے فرمایا :
ہمارے لئے ابن زبیر کی طرح بے راہ ( غیر معروف راستے ) پر چلنا بہتر ہے
تاکہ پیچھا کرنے والے آپ تک نہ پہنچ سکیں۔ آپ نے فرمایا: نہیں خدا کی قسم!
میں سیدھے راستے سے نہیں ہٹوں گا تا وقتیکہ خدا جو چاہے ہمارے درمیان فیصلہ
فرما دے۔
امام حسین جمعہ کی رات تین شعبان کو مکہ میں داخل ہوئے اور مکہ میں داخل
ہوتے وقت آپ یہ آیت پڑھ رہے تھے ( کہ جو گزشتہ آیت کے بعد میں ہے):
وَلَمّٰا تَوَجَّہَ تِلْقٰائَ مَدْیَنَ قٰالَ عَسٰی رَبِّی اَنْ یَہْدِیَنِی سَوٰائَ السَّبِیْلِ
'' اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہا: امید ہے کہ میرا پروردگار ، سیدھے راستے کی طرف میری رہنمائی فرمائے گا ''۔
اس کے بعد آپ نے مکہ میں قیام کیا اور مکہ کے لوگ آپ کی زیارت کے لئے آپ کے
گھر آنے جانے لگے۔ اور بزرگوں اور مختلف شہروں کے لوگوں میں سے جو کوئی
وہاں تھا ، وہ آپ کے پاس آیا۔(ارشاد : ٢/٣٣)
ادھر جب معاویہ کی موت کی خبر لوگوں تک پہنچی تو وہ یزید کے بارے میں جستجو
کرنے لگے اور امام حسین کے بیعت نہ کرنے ' نیز ابن زبیر کے بھی بیعت سے
انکار 'اور ان دونوں کے مکہ چلے آنے کی خبر ان کے کانوں تک پہنچی۔ کوفہ کے
شیعہ سلیمان بن صرد خزاعی کے گھرجمع ہوگئے۔ اور معاویہ کی ہلاکت کی خبر ان
سب کے کانوں تک پہنچ گئی۔ پس وہ خداوند متعال کی حمدو ثنا بجالائے۔
سلیمان بن صُرد نے ان سے کہا : اب جب کہ معاویہ ہلاک ہوگیا ہے اور امام
حسین نے بنی امیہ کی بیعت سے انکار کردیا ہے اور تم ان کے اور ان کے والد
گرامی کے شیعہ ہو۔ پس اگر تم ان کی حمایت کرو اور ان کے دشمنوں سے جنگ کرو
اور ان کے راستے میں جان دینے سے دریغ نہ کرو تو آنحضرت کو خط لکھو اور ان
کے ساتھ اپنے تعاون کا اعلان کرو اوراگر اپنے انتشار اور کاہلی کے سبب ان
کی حمایت سے خوف زدہ ہو تو انہیں دھوکہ نہ دینا
انہوں نے جواباً کہا : نہیں ، ہم ان کے دشمن کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے راستے میں جانثاری کرنے کے خواہاں ہیں۔
(سلیمان بن صرد نے ) کہا : پس انہیں بلانے کے لئے ان کی خدمت میں خط لکھو۔ (ارشاد : ٢/٣٤)
کوفہ کے لوگوں کی طرف سے امام کی خدمت میں بے شمار خط لکھے گئے کہ ایک دن
میں چھے سوتک خطوط موصول ہوئے اور آپ نے کسی خط کا جواب نہ دیا۔ ( یہاں تک
کہ ) ان خطوط کی تعدادبارہ ہزار تک پہنچ گئی۔(لہوف /٣٥،مثیر الاحزان /٢٦)
جب کوفہ کے لوگوں کی طرف سے بھیجے گئے آخری قاصد ہانی بن ہانی اور سعید بن
عبداللہ آپ کی خدمت میں خط لے کرآئے اس وقت امام نے ان کے جواب میں اس
مضمون کا (جوابی) خط تحریر فرمایا :
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ خط حسین بن علی کی طرف سے مومنوں اور مسلمانوں کی جماعت کے نام ہے ، امابعد!
ہانی اور سعید نے تمہارے خط مجھے پہنچائے اور یہ دونوں تمہارے آخری قاصد
تھے۔ اور جو کچھ تم نے انہیں کہا اور ذکر کیا میں وہ سب جانتا ہوں۔ تم میں
سے زیادہ تر کا کہنا یہ ہے کہ ہمارا کوئی امام اور پیشوا نہیں ہے۔ ( چنانچہ
) آپ ہماری طرف چلے آئیے۔ شاید خدا ہمیں آپ کے وسیلہ سے حق و ہدایت کے
محور کے گرد جمع کردے۔
وَاِنِّی بٰاعِث اِلَیْکُمْ أَخِیْ وَابْنَ عَمِّی وثِقَتِی مِنْ أَھْلِ
بَیْتِی مُسْلِمَ بْنَ عَقِیْلٍ فَلَعَمْرِیْ مَالُاِ مٰامُ اِلاَّ
الْحٰاکِمُ بِالْکِتٰابِ، اَلْقٰائِمُ بِالْقِسْطِ، اَلدَّائِنُ بِدِیْنِ
الْحَقِّ ،اَلْحٰابِسُ نَفْسَہُ عَلٰی ذٰلِکَ لِلّٰہِ (ذٰاتِ اللّٰہِ )
وَالسَّلاٰمُ
'' میں فی الحال اپنے چچا زاد بھائی ! اور وہ شخص کہ جو میرے خاندان میں
میرے لئے اطمینان اور وثوق کا مورد ہے ( یعنی ) مسلم بن عقیل کو تمہاری طرف
بھیج رہاہوں۔ اگر اس نے مجھے لکھا کہ تمہاری اور تمہارے اہل خرد کی رائے
اور سوچ تمہارے بھیجے ہوئے نمائندوں اورخطوں کے مطابق ہے تو میں ان شاء
اللہ جلد ہی تمہارے پاس چلا آئوں گا۔مجھے اپنی جان کی قسم! کوئی امام اور
پیشوا نہیں ہے' مگر وہ شخص کہ جو لوگوں کے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق
فیصلہ کرے اورانصاف قائم کرے اوردین حق کا پیرو ہو اور اپنے آپ کو اس حقیقت
پر محکم رکھے''۔والسلام
(ارشاد : ٢/٣٦)
وہ دن ہیں جن دنوں کوئی کرتا نہیں سفر
صحرا کے جانور بھی نہیں چھوڑتے ہیں گھر
رنجِ مسافرت میں ہیں سلطان بحروبر
لب برگِ گل سے خشک ہیں چہرہ عرق میں تر
آتی ہے خاک اُڑ کے یمین و یسار سے
گیسوئے مشکبار اَٹے ہیں غبار سے
(انیس)
از کتاب سحاب رحمت
No comments:
Post a Comment