ایک ناصبی نے ہمارے گروپ شیعہ یونٹی میں ایک پوسٹ بھیجی جس میں لکھا تھا کہ رونہ و ماتم کو قرآن مجید سے ثابت کیجئے وہاں تو ہم لوگوں نے اس ناصبی کو جواب دے دیا سوچا کہ آپ دوستوں کے ساتھہ بھی یہ بات شیر کروں
وہ مذہب ہی نہیں جن کے عقائد قرآن سے ثابت نہ ہو
مخالفین عزادری امام حسین عموماً حکم صبر کو عزاداری کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں -حالانکہ صبر کے معنی وہ نہیں ہے جو معترضین لیتے ہیں صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی چیز کے اظہار سے روکے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے-
قرآن
قرآن مجید میں جابجہ موجود ہے کہ تمام انبیاء کرام مختلف موقعوں پے روئے گر گرائے لیکن ذات خدا نے ان کے اس فعل کو ناجائز قرار نہیں دیا
قرآن مجید کھول کے ماتم حسین کو حرام کہنے والے دیکھہ لے کہ جناب آدم ء -نوح ء- ایوبء- یحییء- ذکریاء- یونسء-اور حضرت یعقوب جیسے جلیل القدر نبی روئے-
آپ ص نے اپنے لیے اور اپنے اصحاب کے لیے رونے کو پسند کیا اور کبھی کھل کر آپ صہ نہ ہنسے
ارشاد رب العزت ہے
وتضحکون ولا تبکون و انتم صامدون
اور مضحکہ کرتے ہو اور نہیں روتے؟اور تم غافل ہو
النجم
اذا تتلی علیھم آیات الرحمن خر و السجدا وبکیا
جب ان پر آیات رحمان کی تلاوت کی جاتی ہے تو روتے ہیں سجدے میں گر پرتے ہیں
مریم 58
اب آتے ہیں ان آیات کی طرف جو غم و رنج کے عالم میں رونے کو جائز ورار دیتی ہے
اور نہ ان لوگوں پے کوئی گناہ یا الزام ہے کہ جس وقت آپ کے پاس اس واسطے سے آتے ہیں کہ آُ ان کو سواری دیدے اور آپ کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کردوں وہ اس حالت سے واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو روا ہوتے ہیں اس غم میں کے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھہ نہیں
قرآن مجید پارہ نمبر 10 سورہ التوبہ آیت نمبر 93
اس آیت سے ثابت ہوا کہ غم یا افسوس کے اوقات میں رونا منع نہیں بلکہ جائز قابل تعریف ہے
چنانچہ قرآن مجید حضرت یعقوب ء کا قصہ موجود ہے کہ فراق پسر میں حزن و رنج کے عالم میں ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں پھر قرآن مجید میں ہی ملتا ہے ان باتوں کے باوجود اللہ پاک نے حضرت یعقوب کو صبر جمیل کا لقب عطا فرمایا
پس ثابت ہوا کہ رونا خلاف صبر نہیں
اب سب سے برا اعتراض جو ہے وہ ماتم کرنے کا ہے آیئے قرآن مجید سے دیکھتے ہیں کہ کسی نے اگر ماتم کیا تو اللہ نے اسے روکا تو نہیں اگر روکا ہے تو گناہ ہے اور اگر نہیں تو اجازت الہی میں شامل ہے جس چیز کی اجازت ہو اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے
ملاحظہ فرمائیں
پس آئی بیوی ابرہیم کی چلاتی ہوئی اور اس نے اپنا منہ----
الذاریت 29
امید ہے اعتراض لگانے والے اس چھوٹے سے آرٹیکل کو خوب پرھہ کے جواب دینے کی کوشش کرینگے
اب شیعہ لوگوں نے اپنی بات قرآن سے ثابت کرلی ہے مگر اتہام حجت کرنے کے لیے کچھہ روایات پیش کرتے ہیں
حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول خدا نے وفات پائی تو میں نے حضور کا سر تقیہ مبارک پر رکھہ دیا میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی اور میں نے اپنا منہ پیٹا-
مسند احمد بن حنبل ج 6 ص 274
تاریخ طبری ج 3
تاریخ السلام
السیر ۃ النبویہ ص 306
شریعت عہد رسالت میں مکمل ہوچکی تھی لہذا بی بی عائشہ نے تکمیل شریعت کے بعد ماتم کیا پس ثآبت ہوا کہ آنحضرت نے ماتم کو حرام قرار نہیں دیا تھا
زرا امی عائشہ کے الفاظ پے غور کیجیے میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی یعنی بقیہ ازواج نے بھی ماتم کیا
No comments:
Post a Comment