علمائے اہل ِسنت (امام جلال الدین سیوطی،محدث شاہ عبدالعزیز دہلوی
امام سعد الدین تفتازانی وغےرہ) کا اقرار کہ معاویہ باغی تھا اور اسکے علاوہ صحابی ِرسول حضرت عمار بن یاسر (رض) کی شہادت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ معاویہ باغی تھا
چلو ہم سلفیوں کے امام قاضی شوکانی کی کتابنیل الاوطار مے باغی کے بارے مے پڑھتے ہےں

امام ِوقت کے خلاف بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے

قاضی شوکانی نیل الاوطار، ج 7 ص 198 میں لکھتے ہیں:
واعلم أن قتال البغاة جائز إجماعا كما حكي ذلك في البحر ولا يبعد أن يكون واجبا لقوله تعالى { فقاتلوا التي تبغي } وقد حكي في البحر أيضا عن العترة جميعا أن جهادهم أفضل من جهاد الكفار إلى ديارهم إذ فعلهم في دار الإسلام كفعل الفاحشة في المسجد
یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ باغی کے خلاف لڑنا جائز ہے جیسا کہ البحر میں درج ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کے مطابق تو ایسا کرنا واجب ہے: "فقاتلوا التي تبغي" اور البحر میں یہ بھی درج ہے کہ تمام عترت کا کہنا ہے کہ باغیوں سے لڑنا کفار سے ان کی زمین پر لڑنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ باغیوں کا مسلمانوں کی زمین پر بغاوت کرنا مسجد میں زنا کرنے کے مترادف ہے۔