علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسین
(ع)
علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسین (ع) کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
علامہ بانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے
صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61
مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر آیئں ہیں
ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ (ص) کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ (ص) ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ (ص) نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ (ص) نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ (ص) کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے .تم نے اچھا خواب دیکھا ہے.حضرت فاطمہ (ص) بچے کو جنم دے گی ، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا.چنانچہ فاطمہ (ص) نے امام حسین (ع) کو جنم دیا .لہذٰٰا وہ میری گود میں آیاا جیسے رسول (ص) نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاسس گئی اور میں نے بچے کو حضور (ص) کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی .پھر جو دیکھا تو رسول اللہ (ص) کی آنکھیں آنسو ٹبکا رہی تھیں .کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نب (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی ، اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے
مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے
مگر البابی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ (ص) آپ کا یہ بیٹا حسین (ع) قتل کیا جائے گا ،اگر آپ (ص) چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ (ص) کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسین (ع) قتل ہونگے.پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتے میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی
سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822
ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسین (ع) کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا
احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے.نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے
مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے ، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں .اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے
البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے.
نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227
اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسین (ع) سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں
مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ
میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ ،مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے .اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں
سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:1171
No comments:
Post a Comment