اس سوال کا جواب دینے سے پہلے چند امور کا تجزیہ کرنا
لازم اور ضروری ہے تاکہ معلوم ہوجائے وہ اسباب و علل کیا تھے کہ جن کی وجہ
سے امام حسین نے یزید کی بیعت کو ٹھکرا دیا، خداکا دین اور اپنے نانا کی
شریعت کو بچانے کیلئے اپنی جان کی بازی لگادی سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا
ہے کہ بیعت کے معنی اور مفہوم کیا ہے ؟
بیعت کے لغوی معنی: منتہی الا رب میں بیعت کے معنی۔ عہد و پیمان۔کے لکھے ہیں اور بیعت لفظ باع کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں فروخت کر دیا۔ چونکہ خرید و فروش میں دو فریق میں عہد و پیمان ہوتا ہے اور اس معاملہ میں دو چیزیں (ایک دوسرے کے عوض میں )بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان منتقل ہوتی ہیں تو اس کے معنی ہوئے طرفین کے درمیان عہد وپیمان اور دو چیزوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا ۔ جس کو قانونی زبان میں بدل کہتے ہیں ۔کوئی بھی معاملہ بغیر بدل کے جائز نہیں اور جس معاہدۂ بیع کی بنیاد پر بیعت کو قائم کیا گیا ہے اس میں بھی یہی شرط ہوتی ہے معاملۂ بیع قرآن شریف میں اس طرح ذکر ہوا ہے ۔ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ۔
اس بیع وشریٰ میں دونوں طرف سے حصول بدل ہے ۔ ایک فریق نے اپنا نفس بیچا اور دوسرے نے اپنی رضامندی اس کے عوض میں عنایت کی لیکن یہ خدا اور بندہ کے درمیان کامعاملہ ہے اگر بادشاہ اور رعایا کے درمیان بھی ہو تو عین مطابق اصول مذہب و قانون ہو گا دوسری بات یہ ہے کہ فریقین کے عہد و پیمان کے جوازکے لئے ان دونوں کی آزاد رای ہونا ضروری ہے اگر جبر و ا کراہ آ گیا توپھر اقرار و عہد و پیمان کی نوعیت و ماہیت بدل جاتی ہے ۔بیعت کی اصل نوعیت اور ماہیت معلوم کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام میں حکومت اس عہد و پیمان کے اوپر مبنی ہے جو رعایا اور حاکم کے درمیان ہوتا ہے حاکم وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہارے اوپر شرع و سنّت رسول کے مطابق حکومت کرونگا رعایا اقرار کرتی ہے کہ اگر تم نے احکام خدا اور رسول کے مطابق عمل کیا تو ہم تمہارے ہر ایک حکم کی اطاعت کرینگے گویا یہ اطاعت با دشاہ کے اسلامی طرز عمل کے سا تھ مشروط ہے لیکن حکومت کا یہ تخیّل اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا قانون میں نہیں پایا جاتا ۔دیگر قوانین میں حکومت کی بناء طاقت و جبر کے اوپر ہوتی ہے اسلام میں حکومت کی بنا ء مذہب الہیہ پر ہے ۔اب ہمیں یزید کے طرز عمل کو دیکھنا ہے خود بخود یہ بات واضح و روشن ہو جائیگی کہ امام حسین نے یز یدکی بیعت کیوں نہیں کی تھی۔
تاریخ کے آئینہ میں یزیدکا کردار: یزید کی تصویر ہر ایک تاریخ کی کتاب میں اچھی طرح کھینچی گئی ہے مورّخ ابن کثیر دمشقی نہایت متعصّب مورّخ ہے اور ان لوگوں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حسینؑ یزید سے لڑ نے کے لئے گئے تھے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ :
یزید شراب پینے اور رقص و سرود و شکار میں منہمک رہنے میں بہت مشہور ہو گیا تھا وہ رنڈیوں اور لونڈیوں کی صحبت پسند کرتا تھا، کتّوں اور بندروں کے ساتھ کھیلتا تھا، مینڈھوں اور مرغوں کی لڑ ائی کا شائق تھا، کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی تھی کہ وہ شراب سے مخمور نہ اٹھے ، بندر کو علماء کے کپڑ ے پہنا کر ، گھوڑ ے پر بٹھا کر بازاروں میں پھراتا تھا بندروں کو سونے اور چاندی کے ہار پہناتا تھا اور جب کوئی بندر مرتا تو رنج و غم کرتا تھا ۔
(البدایہ والنہایہ فی التاریخ الجزء الثامن ص۵۳۲ ‘ والبلاغ المبین محمد سلطان مرزادہلوی۔حصّہ۲ ‘ص۸۸۶)
نتیجہ :اب جب ہم نے بیعت کی نوعیت ، اسلامی حکومت کی ماہیت اور یزید کی ہیئت معلوم کر لی تواب یہ معلوم کرنا بہت آسان ہو گیا کہ امام حسین ؑ نے ا سکی بیعت کیوں نہیں کی تھی در اصل اسلام میں وہ شخص حاکم نہیں ہو سکتا جو شرع اسلامی کی علانیہ ہتک کرتا ہو اور اس کے ان اوامر و نواہی کی بھی تعمیل نہ کرتا ہو جن میں نہ تاویل کا کوئی موقع اور نہ شبہ کی کوئی گنجائش ہو وہ بیعت طلب کرنے کا حقدا رہی نہ تھا کیوں کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی عہد و پیمان نہیں کیا تھا کہ وہ اوامر و نواہی اسلام کے مطابق عمل کریگا اور بیعت میں طرفین کی طرف سے عہد وپیمان اور آزاد رای کا ہونا ضروری ہے لیکن بیعت یزید کی پیشکش میں دونو ں میں سے ایک شرط بھی نہیں پائی جاتی در حقیقت اس کو مطلقا حکومت کا کوئی حق ہی نہیں پہونچتا تھا پھر وہ کس بنیاد پر امام حسین سے بیعت طلب کر رہا تھا بلکہ اس کے بر عکس بیعت لینے کا اصلی حق امام حسین کو تھا کہ آپ کی بیعت کی جاتی۔ پس معلوم ہوا کہ حسین وارث تھے اور یزید غاصب ۔
ا س میں کچھ شک نہیں کہ امام حسین نے بیعت یزید سے نہایت سختی کے ساتھ انکار کیا کیونکہ امام جانتے تھے اور آخر وقت تک جانتے تھے کہ اگر وہ بیعت کر لیں تو پھر تمام مصائب یک لخت دور ہو جائیں گے ، پھر ان کے لخت جگر عزیز و اقارب اور احباب قتل اور اہل حرم تشہیر و رسوائی سے بچ جائیں گے ، لیکن اسلام کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا شام سے تو اسلام ختم ہو ہی گیا تھا عرب سے بھی مفقود ہو جاتا اور پھر یزید واقعی کہہ سکتا تھا کہ میں نے اپنے دادا کا بدلہ لے لیا ۔اور پھر ان کے مذہب کو رائج کر دیا لیکن امام حسین کو ایک ایسی چیز کی حفاظت منظور تھی جو اس عظیم الشان فدیٔہ جان کے دیئے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتی تھی اوروہ عزیز شے نماز‘ رسول کی شریعت اوراسلام کی حقّانیت تھی جس کو امام نے سجدے میں سرکٹا کرہمیشہ کے لئے زندۂ جاوید کر دیا۔
بیعت کے لغوی معنی: منتہی الا رب میں بیعت کے معنی۔ عہد و پیمان۔کے لکھے ہیں اور بیعت لفظ باع کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں فروخت کر دیا۔ چونکہ خرید و فروش میں دو فریق میں عہد و پیمان ہوتا ہے اور اس معاملہ میں دو چیزیں (ایک دوسرے کے عوض میں )بیچنے اور خریدنے والے کے درمیان منتقل ہوتی ہیں تو اس کے معنی ہوئے طرفین کے درمیان عہد وپیمان اور دو چیزوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا ۔ جس کو قانونی زبان میں بدل کہتے ہیں ۔کوئی بھی معاملہ بغیر بدل کے جائز نہیں اور جس معاہدۂ بیع کی بنیاد پر بیعت کو قائم کیا گیا ہے اس میں بھی یہی شرط ہوتی ہے معاملۂ بیع قرآن شریف میں اس طرح ذکر ہوا ہے ۔ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ ۔
اس بیع وشریٰ میں دونوں طرف سے حصول بدل ہے ۔ ایک فریق نے اپنا نفس بیچا اور دوسرے نے اپنی رضامندی اس کے عوض میں عنایت کی لیکن یہ خدا اور بندہ کے درمیان کامعاملہ ہے اگر بادشاہ اور رعایا کے درمیان بھی ہو تو عین مطابق اصول مذہب و قانون ہو گا دوسری بات یہ ہے کہ فریقین کے عہد و پیمان کے جوازکے لئے ان دونوں کی آزاد رای ہونا ضروری ہے اگر جبر و ا کراہ آ گیا توپھر اقرار و عہد و پیمان کی نوعیت و ماہیت بدل جاتی ہے ۔بیعت کی اصل نوعیت اور ماہیت معلوم کرنے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ اسلام میں حکومت اس عہد و پیمان کے اوپر مبنی ہے جو رعایا اور حاکم کے درمیان ہوتا ہے حاکم وعدہ کرتا ہے کہ میں تمہارے اوپر شرع و سنّت رسول کے مطابق حکومت کرونگا رعایا اقرار کرتی ہے کہ اگر تم نے احکام خدا اور رسول کے مطابق عمل کیا تو ہم تمہارے ہر ایک حکم کی اطاعت کرینگے گویا یہ اطاعت با دشاہ کے اسلامی طرز عمل کے سا تھ مشروط ہے لیکن حکومت کا یہ تخیّل اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا قانون میں نہیں پایا جاتا ۔دیگر قوانین میں حکومت کی بناء طاقت و جبر کے اوپر ہوتی ہے اسلام میں حکومت کی بنا ء مذہب الہیہ پر ہے ۔اب ہمیں یزید کے طرز عمل کو دیکھنا ہے خود بخود یہ بات واضح و روشن ہو جائیگی کہ امام حسین نے یز یدکی بیعت کیوں نہیں کی تھی۔
تاریخ کے آئینہ میں یزیدکا کردار: یزید کی تصویر ہر ایک تاریخ کی کتاب میں اچھی طرح کھینچی گئی ہے مورّخ ابن کثیر دمشقی نہایت متعصّب مورّخ ہے اور ان لوگوں میں سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حسینؑ یزید سے لڑ نے کے لئے گئے تھے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہے کہ :
یزید شراب پینے اور رقص و سرود و شکار میں منہمک رہنے میں بہت مشہور ہو گیا تھا وہ رنڈیوں اور لونڈیوں کی صحبت پسند کرتا تھا، کتّوں اور بندروں کے ساتھ کھیلتا تھا، مینڈھوں اور مرغوں کی لڑ ائی کا شائق تھا، کوئی صبح ایسی نہیں ہوتی تھی کہ وہ شراب سے مخمور نہ اٹھے ، بندر کو علماء کے کپڑ ے پہنا کر ، گھوڑ ے پر بٹھا کر بازاروں میں پھراتا تھا بندروں کو سونے اور چاندی کے ہار پہناتا تھا اور جب کوئی بندر مرتا تو رنج و غم کرتا تھا ۔
(البدایہ والنہایہ فی التاریخ الجزء الثامن ص۵۳۲ ‘ والبلاغ المبین محمد سلطان مرزادہلوی۔حصّہ۲ ‘ص۸۸۶)
نتیجہ :اب جب ہم نے بیعت کی نوعیت ، اسلامی حکومت کی ماہیت اور یزید کی ہیئت معلوم کر لی تواب یہ معلوم کرنا بہت آسان ہو گیا کہ امام حسین ؑ نے ا سکی بیعت کیوں نہیں کی تھی در اصل اسلام میں وہ شخص حاکم نہیں ہو سکتا جو شرع اسلامی کی علانیہ ہتک کرتا ہو اور اس کے ان اوامر و نواہی کی بھی تعمیل نہ کرتا ہو جن میں نہ تاویل کا کوئی موقع اور نہ شبہ کی کوئی گنجائش ہو وہ بیعت طلب کرنے کا حقدا رہی نہ تھا کیوں کہ اس نے اپنی طرف سے کوئی عہد و پیمان نہیں کیا تھا کہ وہ اوامر و نواہی اسلام کے مطابق عمل کریگا اور بیعت میں طرفین کی طرف سے عہد وپیمان اور آزاد رای کا ہونا ضروری ہے لیکن بیعت یزید کی پیشکش میں دونو ں میں سے ایک شرط بھی نہیں پائی جاتی در حقیقت اس کو مطلقا حکومت کا کوئی حق ہی نہیں پہونچتا تھا پھر وہ کس بنیاد پر امام حسین سے بیعت طلب کر رہا تھا بلکہ اس کے بر عکس بیعت لینے کا اصلی حق امام حسین کو تھا کہ آپ کی بیعت کی جاتی۔ پس معلوم ہوا کہ حسین وارث تھے اور یزید غاصب ۔
ا س میں کچھ شک نہیں کہ امام حسین نے بیعت یزید سے نہایت سختی کے ساتھ انکار کیا کیونکہ امام جانتے تھے اور آخر وقت تک جانتے تھے کہ اگر وہ بیعت کر لیں تو پھر تمام مصائب یک لخت دور ہو جائیں گے ، پھر ان کے لخت جگر عزیز و اقارب اور احباب قتل اور اہل حرم تشہیر و رسوائی سے بچ جائیں گے ، لیکن اسلام کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا شام سے تو اسلام ختم ہو ہی گیا تھا عرب سے بھی مفقود ہو جاتا اور پھر یزید واقعی کہہ سکتا تھا کہ میں نے اپنے دادا کا بدلہ لے لیا ۔اور پھر ان کے مذہب کو رائج کر دیا لیکن امام حسین کو ایک ایسی چیز کی حفاظت منظور تھی جو اس عظیم الشان فدیٔہ جان کے دیئے بغیر محفوظ نہیں رہ سکتی تھی اوروہ عزیز شے نماز‘ رسول کی شریعت اوراسلام کی حقّانیت تھی جس کو امام نے سجدے میں سرکٹا کرہمیشہ کے لئے زندۂ جاوید کر دیا۔