Skip to main content

امام حسین (ع) کے ناصبی قاتلوں کا پیروکار کون ہے؟


امام حسین (ع) کا قتل کر نے والے وہی لوگ تھے جو یزید (لا) کی خلافت کو جائز تسلیم کرتے تھے۔ ہم شیعان ِعلی اپنے آپ ک یزید (لا) اور اُس کے ناصبی پیروکاروں سے دور رکھتے ہیں ۔ اب سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی تنظیمیں اور ویب سائٹس ہمیں پوری ایمانداری سے بتائیں کہ کیا وہ بھی ایسا کرتے ہیں ؟ اور کیا یہ لوگ ان سب لوگوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جنہوں نے نواسہ ِ رسول (ص) امام حسین (ع) کو قتل کیا ؟ بدقسمتی سے ایسا بالکل نہیں ہے ۔ ناصبی حضرات جو اپنے آپ کو سُنی کہتے ہیں یزید (لا) کے دفاع اور اسکی ثنا میں لکھ کر اُسے ایک نیک انسان ظاہر کر نے کی کوششیں کی ہیں ۔ مثلأ ہمارے پاس پاکستانی حنفی اسکالر کی کتاب "خلافت ِمعاویہ و یزید" موجود ہے جس میں مصنف نے اپنے خلیفہ دوم عمر بن خطاب اور یزید کے طریقہ ِ خلافت کو یکساں تسلیم کرتے ہوئے یزید کی تعریف کی ہے۔

اگر بات یہیں رک گئی ہوتی تو ناصبی اپنے آپ کو یزید (لا) سے مبرہ قرار دینے کی ناکام کوششیں کر سکتے تھے لیکن سپاہ صحابہ جیسے نواصب اپنے پیروکاروں سے جو تلخ حقیقت چھپا دیا کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ان کے سلف اماموں نے اُن لوگوں کو معتبر راوی تسلیم کرتے ہوئے احادیث روایت کی ہیں جن کے ہاتھ امام حسین کے خون میں رنگے ہوئے ہیں ۔ چونکہ وہ لوگ جن کی آستینوں پر خون ِ حسین ہے ان ناصبیوں کے آبا و اجداد ہیں اس وجہ سے انہیں اُن سے احادیث قبول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوگی لیکن جن لوگوں کا امام حسین (ع) کے قتل سے کوئی تعلق نہیں وہ ہمیشہ اُن سے نفرت کا اظہار کرینگے اور دینی معاملات میں اُن قاتلوں سے کسی قسم کا واسطہ نہیں رکھینگے۔

جہاں ہم شیعان ِ اھل ِبیت (ع) یزید ، ابن زیاد ، ابن سعد ، شمر وغیرہ پر لعنت بھیجتے ہیں وہیں اہل ِسنت امام انہی قاتلین ِ امام حسین (ع) کو اپنے مذھب میں احادیث کے ' ثقہ' یعنی معتبر راوی تسلیم کرتے ہیں اور عزت و احترام کے ھار ان کے گلے میں بنا کسی شرم کے ڈالتے ہیں ۔ آئیے اس تلخ حقیقت پر مذید روشنی ڈالتے ہیں اور سپاہ صحابہ جیسی ناصبی تنظیموں کی پلیدگی کو عیاں کرتے ہیں۔

عمر بن سعد بن ابی وقاص




اھل ِسنت کے علماء میں ایک نامور اور معتبر نام امام ذہبی جو عمر ابن سعد کے بارے میں تحریر کرتے ہیں:

ابن سعد نے اُس فوج کی قیادت کی جس نے الحسین کو قتل کیا، مختار انے ابن سعد کو قتل کیا
سیرا علام النبلاء ، ج 4 ص 349

اہلِ سنت کے امام ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تھذیب التھذیب میں حدیث کے حوالنے سے عمر ابن سعد کی مذھبی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

عمر ابن سعد بن ابی وقاص زہری ابو حفص مدنی کوفہ میں رہے۔ انہوں نے اپنے والد اور سعید الخدری سے روایت کیں ہیں ۔ ان کے بیٹے ابراہیم ، پوتے ابو بکر حفص، ابو اسحاق سبیعی، عزار بن حریث ، یزید بن ابی مریم ، قتادہ ،زہری ، یزید بن حبیب اور دوسروں نے بھی ان سے روایت کی ہیں۔
تھذیب التھذیب ، ج 7 ص 450 ۔ 451

یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔
www.almeshkat.net
( جلد 7 ترجمہ 747 )


جہاں تک اہل ِسنت کی اس بزرگ ہستی کی سچائی کا تعلق ہے، تو امام ابن حجر عسقلانی نے حدیث کے روایت کرنے میں اس شخص کو 'صدوق' کا درجہ عطا فرمایا ہے۔ دیکھئے امام ابن حجر کی کتاب 'تقریب التھذیب' ج 1 ص 717 ترجمہ نمبر 4903 جبکہ اہل ِسنت کے ایک اور امام عجلی نے تو اس دشمن ِحسین کی سچائی اور امیانداری پر ابن حجر عسقلانی سے بڑھ کر اپنے اطمنان کا اظہار کیا ہے۔ کتاب 'تہذیب الکمال' ج 21 ترجمہ نمبر4240 میں عمر بن سعد کے متعلق امام عجلی کا قول یوں نقل کیا ہے:

احمد بن عبد اللہ بن عجلی نے فرمایا کہ عمر بن سعد وہ ہیں جنہوں نے حسین کا قتل کیا ۔۔۔ وہ تابعی ہیں، ثقہ ہیں

یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس وہابی ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔
www.almeshkat.com
( جلد 21 ترجمہ 4240)

امام ِاہل ِسنت ذہبی کتاب 'میزان الاعتدال' ج 3 ص 192میں عمر بن سعد کے متعلق لکھتے ہیں:

هو في نفسه غير متهم
ذاتی طور پر ان کوئی میں نقص نہیں

اس لعنتی انسان کی روایت کردہ احادیث مذہب ِاہل ِسنت کی بلند درجہ کتاب 'مسند احمد بن حنبل' میں موجود ہیں اور اہل ِسنت اور خاص طور پر سلفی و وہابی مذہب کے عالم ِدین شیخ شعیب الارنئووط نے کتاب 'مسند احمد بن حنبل' کے حاشیہ میں ان احادیث کو 'حسن' کا درجہ دیا ہے جن کی سند میں یہ منافق دشمن ِ اہل ِبیت موجود ہے۔
1۔ مسند احمد ، ج 1 ص 173 حدیث 1487
2۔ مسند احمد ، ج 1 ص 177 حدیث 1531
3۔ مسند احمد ، ج 1 ص 182 حدیث 1575

اسی طرح ھل ِسنت کے نامور اسکالر شیخ احمد شاکر نے بھی کتاب 'مسند احمد' کا حاشیہ تحریر کیا ہے اورعمر بن سعد کی ایک حدیث کو 'صحیح' قرار دیا ھے، دیکھئے مسند احمد، ج 3 ص 51۔ اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی نے ایک حدیث جس کا راوی عمر بن سعد ھے اسے 'حسن' قرار دیا ھے ، دیکھئے ھدایت الروات، ج 2 ص 229۔

اھل ِسنت کا یہ ' ثقہ و صدوق' ابن سعد، صحابی سعد بن ابی وقاص کا وہ بیٹا تھا جس کے بارے میں امام بخاری نے اپنی تاریخ کی کتاب 'تاریخ الکبیر' میں لکھا ہے:

جب الحسین کربلا پہنچے تو عمر ابن سعد وہ پہلا شخص تھا جس نے خیموں کی رسّیاں کاٹ ڈالیں
تاریخ السغیر ، ص 75

کم از کم یہاں سے تو سپاہ صحابہ اور ان جیسے دیگر ناصبیوں کو یہ پات معلوم ہوجانا چاہیئے ہے کہ امام حسین (ع) کا قتل ان کے ناصبی باپ داداؤں نے ہی انجام دیا تھا۔ تمہارے سلف بزرگوں نے اُنہی قاتلوں کا اتباع کیا اور انہیں اپنے مذھب میں ایک ا علی مقام دیا جیسا کہ وہ حدیث کے راوی ہونے کی حیثیت سے اُن کو معتبر اور معزز شخصیات تسلیم کرتے تھے۔

عبیداللہ ابن زیاد




ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں:

عبیداللہ ابن زیاد معاویہ اور ان کے بیٹے یزید کے لئے امیر ِ کوفہ تھے اور یہ وہی ہیں جنہوں نے حسین سے لڑنے کے لئے کوفہ سے فوج تیار کی جب تک وہ کربلا میں قتل نہ کردیئے گئے۔ وہ ابن مرجانہ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ مرجانہ ان کی ماں تھی۔ابن اساکر نے انہیں تاریخ ِ دمشق میں ترجمہ میں ذکر کیا ہے اور وہ سنن ابو دائود میں بھی مذکور ہیں۔ ۔۔ انہوں نے سعد ابن ابی وقاص ، معاویہ ، معقل بن یسار اور بنی جعدہ کے بھائی ابن امیہ سے روایت کی ہیں۔ جن لوگوں نے ان سے روایت کی ان میں حسن بصری اور ابو ملیح بن اسامہ شامل ہیں
تعجیل المنفع بزوائد رجال الا ئمہ الاربہ ، ص 180

ابن کثیر نے بھی اپنی کتاب 'البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1252 ، 'ابن زیاد کے حالات' میں اس کا سنی کتب میں روایات کا بیان کرنا لکھا ہے۔
البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1252

یہ مشہور کتاب انٹرنیٹ پر موجود اس وہابی ویب سائٹ سے بھی ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔
www.almeshkat.net
(صفحہ 647)

اگر سپاہ صحابہ اور Ansar.org جیسے نواصب یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعان ِعلی (ع) نے امام حسین (ع) کا قتل کیا تو کیا وہ یہ بتانا پسند کارینگے کہ خون ِ حسین بہانے والوں کا مقام ان کے مذھب میں اتنا معتبر کیوں ہے ؟یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ ان کے محدثین ، مورخین اور علماء ان قاتلیں سے محبت رکھتے تھے اور ان کی گواہی کو قابل ِ بھروسہ تسلیم کرتے تھے ۔ انصار ویب سائٹ اپنے آپ کو اھل ِبیت کے اصل پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ہمیں وہ یہ بتائین کہ کیا اھل ِبیت کے اصل پیروکار انہی کے قاتلوں سے محبت رکھ سکتے ہیں اور ان سے احادیث قبول کر سکتے ہیں ؟ الحمداللہ ناصبیت کہ مکروہ منہ سے یہ نقاب بھی ہٹ ہی گیا ۔

اگر ناصبی اب بھی کم ذہن ہونے یا پھر یہ تلخ حقیقت جاننے کے بعد کہ ان کے اجداد ہی قاتلین ِ حسین (ع) ہیں اگر ابن زیاد کو شیعہ کہتے ہیں تو ہمیں خود ابن زیاد کے الفاط کو نقل کرنے کی اجازت دیں جن سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یزید (لا) کو بالکل اُسی طرح اپنا خلیفہ و امیر المومنین تسلیم کرتا تھا جس طرح بزرگان ِ اھل ِسنت کرتے تھے۔ علماء ِ اھل ِسنت کی جانب سے یزید (لا) کو خلیفہ جاننے کے سلسلے میں ہم نے اس آرٹیکل کے چھٹے باب میں بحث کی ہے۔ حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے ابن سعد کو لکھا:

ان کے اور پانی کے درمیان حائل ہوجاؤ ، جیسا کہ پرہیزگار پاکباز مظلوم امیر المومنین عثمان بن عفان کے ساتھ کیا گیا تھا اور حسین اور ان کے ساتھیوں کو پیشکش کرو کہ وہ امیر المومنین یزید بن معاویہ کی بیعت کر لیں
البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1058؛ نفیس اکیڈمی کراچی

ایک اور مورخ احمد بن داؤد ابو حنیفہ دینوری لکھتے ہیں:

میں نے الحسین کو قتل کیا کیونکہ انہوں نے ایک امام اور اس کی رعایا پر خروج کیا ور مجھے اُسی امام نے حکم بھیجا کہ میں حسین کو قتل کر دوں ۔ اب اگر یہ بات خطا تھی تو اس کا الزام یزید پر ہے
اخبار الطوال ، صفحہ 279

علامہ جلال الدین سیوطی اپنی مشہور کتاب تاریخ ع خلفاء میں لکھتے ہیں:

پھر یزید نے اپنے حاکم ِعراق عبید اللہ ابن زیاد کو لکھا کہ حسین سے قتال کرو
تاریخ خلفاء ، صفحہ 140

تو ابن زیاد یزید کو اپنا امیر المومنین تسلیم کرتا تھا جیسا کہ بعض سُنی بزرگ علماء کرتے آئے ہیں ۔ یہ یزید (لا) تھا جس نے امام حسین (ع) کو قتل کرنے کے احکامات جاری کئے اور وہ لوگ جو یزید ِ پلید کو اپنا خلیفہ اور ابن زیاد کو اپنا امیر و حاکم تسلیم کرتے تھے انہوں نے اس حکم کو پایا تکمیل تک پینچایا۔ معاملہ آئنے کی مانند صاف ہے۔ واقعہ ِ کربلا میں ہم دیکھتے ہیں کہ یزید (لا) کی فوج اُسی کے احکامات کو بجالاتی رہی کیونکہ وہ اُس پلید کو اپنا خلیفہ تسلیم کرتے تھے۔

شمربن ذالجوشن




یوں تو اس ملعون شخص پر بحث کرنے کا کوئی معقول وجہ نہیں کیونکہ سنی و شیعہ بچے بھی جانتے ہیں کہ اس کم ظرف لعنتی شخص نے نواسہ ِرسول کے پاک گلے پر خنجر چلایا تھا۔ لیکن پھر ہم جب سپاہ ِصحابہ کے نواصب کو دیکھتے ہیں جو شمر بن ذالجوشن کو شیعہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہم نے چاہا کہ اس سازش کو بھی ناکام بنا دیا جائے۔ انٹرنیٹ پر موجود نواصب کی ایک ویب سائٹ کا مصنف جو کہ اپنے آپ کو ابن الہاشمی کہتا ہے، سپاہ ِصحابہ کے ناصبیوں کا طرز ِعمل اپناتے ہوئے لکھتا ہے:

Ibn al Hashimi states:
جس شخص نے سیدنا حسین کو قتل کیا اس کا نام شمر بن ذالجوشن
تھا اور وہ شیعہ تھا جیسا کہ سنی و شیعہ کتابوں میں لکھا ہے۔ شمر شیعہ کا حصہ تھا لیکن پھر اس نے سیدنا حسین کو چھوڑدیا اور یزید کے آدمیوں سے جا ملا۔

اس امر کا پختہ ثبوت دینے کے لئے (کہ شمر شیعہ تھا)، ہم حوالہ دیتے ہیں مستند اور مایا ناز شیعہ عالم دین قمی کا۔ قمی جو کہ مشہور کتاب 'مفاتح الجنان' کے مصنف ہیں اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
'میں کہتا ہوں کہ شمر صفین کے روز امیر المومنین کی فوج میں تھا'۔ (القمی، صفینۃ النجات، ج 4 ص 492).


جواب نمبر 1: 37 ھجری میں ہر وہ شخص جو حضرت علی کو جائز خلیفہ تسلیم کرتا اور ان کے دشمنوں سے لڑا وہ 'شیعہ' ہی کہلایا جاتا




اگر ناصبی مصنف کا مضمون کچھ بتاتا ہے تو وہ یہ کہ ناصبیت اور عقل کا دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے مخالفین کا عقیدہ ہے کہ جناب عمار یاسر جیسے صحابہ شیعہ نہیں تھے۔ اگر ناصبی مصنف یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ شمر اس وجہ سے شیعہ ہوا کہ وہ جنگ صفین میں حضرت علی کے ساتھ تھا تو کیا نواصب یہ ماننے پر راضی ہوجائنگے کہ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ دیگر لوگ جن میں عمار یاسر جیسے صحابہ شامل میں وہ بھی شیعہ تھے؟ شیعہ ہونا صرف شمر کے لئے ہی کیوں ہو عمار یاسر جیسے صحابی کے لئے کیوں نہیں؟

در ِحقیقت جنگ صفین میں دو واضح گروہ تھے۔ ایک شیعان ِعلی اور دوسرا شیعان ِعثمان اور 'اہل ِسنت' نام کا وجود نہ تھا۔ لقب 'شیعہ' اس وقت ہر اس شخص کے لئے استعمال ہوتا تھا جو کہ حضرت علی کے خلافت کے زمانے میں ان کا حامی ہو اور ایسے لوگوں میں شامل تھے تمام وہ لوگ:

1۔ جو کہ اس کو شرعی فرض سمجھتے تھے کہ مولا علی کی نصرت و حمائت کریں کیونکہ وہ رسول اللہ کے بلافصل جانشیں تھے۔ جیسا کہ اس آرٹیکل کے ابتدائی حصہ میں تفصیل سے بیان کیا گیا کہ ایسا گروہ تعداد میں نہایت کم تھا جس کو آج آپ شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ یا رافضی کہتے ہیں۔

2۔ جنہیں آج "اہلِ سنت" کہا جاتا ہے ، جو کہ حضرت علی کی حمائت اس نظریہ کے تحت کرتے تھے کہ وہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتےتھے اس لئے ان کے دشمنوں سے لڑے ۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں

سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی
تحفہ اثناء عشری (اردو) ، صفحہ 27 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی

اب چونکہ شمر کو شیعہ ثابت کرنے کا درد نواصب کے پیٹ میں جاگا ہے، اس لئے یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بھی نواصب پر ہی عائد ہوتی ہے کہ شمر شیعہ کے اس گروہ میں سے تھا جو کہ حضرت علی کو رسول اللہ کا بلافصل جانشین تسلیم کرتا تھا، جسے آج رافضی یا امامی شیعہ کہتے ہیں تاکہ اس گروہ میں سے جو کہ حضرت علی کو عثمان کے بعد چوتھا جائز خلیفہ تسلیم کرتا تھا جسے آج اہل سنت کہتے ہیں (جہاں تک ہمارا سوال ہے، ہم ثابت کردینگے کہ وہ اس دوسرے شیعہ گروہ میں سے تھا)۔

جواب نمبر 2: انسان کی پہچان اس کے عقائد سے ہوتی ہے جن کی بنیاد پر وہ کوئی مخصوص عمل کرتا ہے نا کہ اس کے ماضی سے




یہ عقل کی بات ہے کہ اگر کسی کو ایک شخص کے جرائم پر فیصلہ دینا ہو، تو ایسے شخص کے اس واقت کے عقائد کو مد ِنظر رکھا جائے گا جو اس وقت اس شخص کے تھے جب اس نے جرائم کا ارتکاب کیا اور اس سلسلے میں اس کا ماضی غیرضروری ہو گا۔ اگر ایسا نہ ہو، تو کیا ہم درست ہونگے اگر ہم:

1۔ 'شیطانی آیات' کے مصنف سلمان رشدی
2۔ 'میں مسلمان کیوں نہیں ہوں؟' کے مصنف ابن ورق
3۔ فلم 'سبمشن' کے ہدایتکار عیان ھرسی علی
کو سنی مسلمان تسلیم کریں کونکہ اپنے اپنے ماضی میں یہ تمام لوگ سنی مذہب سے وابسطہ تھے؟

اسی طرح کیا ہم صحابہ کو بت پرست، زناکار، جواری و شرابی ہی تسلیم کرتے ہیں کیونکہ ماضی میں وہ ان حرکات و سکنات کو ارتکاب کیا کرتے تھے؟ نہیں۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اب ان کے ماضی کا ذکر نہیں کیا جاتا اور صرف اسلام لانے کے بعد کے اعمال ہی کا حوالہ دیا جاتا ہے۔

اگر کچھ دیر کے لئے مان بھی لیا جائے کہ شمر کسی زمانے میں شیعہ تھا، تو دیکھنا یہ ہوگا کہ امام حسین کا سر تن سے جدا کرتے وقت اس کا کیا عقیدہ تھا۔ کیا وہ اس وقت شیعہ تھا؟ ہرگز نہیں۔ اس وقت وہ شیعان ِیزید میں سے تھا۔

اور اگر کچھ دیر کے لئے یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ شمر عقیدتی یا امامی شیعہ گروہ میں سے تھا، تب بھی ہم نے اچھے اچھوں کو برا بنتے دیکھا ہی ہے۔ اس بابت ابلیس کی مثال موجود ہے جو کہ کسی زمانے میں اللہ کا شیعہ (پیروکار) تھا لیکن بعد میں اس نے اپنی علیحدہ جماعت بنالی۔ جنگ صفین میں حضرت علی کے ہمراہ لڑنے والے شیعوں میں سے ایک چھوٹا سا کارکن ہوگا لیکن ابلیس تو فرشتوں کی جماعت کا سردار تھا۔ کیا ہم اللہ کی پاک ذات کو متنازع بنانے کے لئے ابلیس کا ذکر کرتے ہیں کہ جو روش ابن الہاشمی نے اپنائی ہے؟

جواب نمبر 3: امام حسین کو قتل کرتے وقت کے عقائد شمر کو سنی ثابت کرتے ہیں نا کہ شیعہ





امام ذہبی کی مشہور کتاب 'اعتدال المیزان' ج 2 ص 280 ترجمہ نمبر 3742 میں ہم پڑھتے ہیں:

ابو اسحاق نے کہا: 'شمر ہمارے ساتھ نماز پڑھتا اور کہتا: 'اے اللہ، تو جانتا ہے کہ میں شریف انسان ہوں، میری مغفرت فرما' ۔ میں نے اس سے کہا: 'تمہیں اللہ کیسے معاف کرسکتا ہے جبکہ تم نے اللہ کے رسول کے فرزند کو قتل کرنے میں حصہ لیا ہے؟'۔ اس نے کہا: 'مرو تم۔ مں اور کیا کرتا؟ ہمارے امراء نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا لہٰذا ہم نے ان کی نافرمانی نہیں کی، اگر ہم ان کی نافرمانی کرتے تو ہم جانور سے بھی بدتر ہوتے'۔ میں نے کہا: 'یہ تو ایک بھونڈا بہانہ ہے، اطاعت تو بس اچھی باتوں میں ہوتی ہے'۔

جیسا کہ ہم نے پڑھا، شمر کا عقیدہ تھا کہ اپنے حکمرانوں کے احکام پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا اس کا فرض تھا۔ ابن الہاشمی جیسے نواصب کو چیلنج ہے کہ وہ یہ ثابت کردیں کہ شیعان ِعلی کا عقیدہ یہ تھا کہ حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حسین کو قتل کرنا فرض ہے۔ وہ شیعہ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امامت اہل ِبیت کا وہ حق ہے جو انہیں اللہ تعالی نے دیا ہے ایسے شیعہ ہمیشہ سے ہی خود ساختہ خلافت و حکمرانی کو رد کرتے آئے ہیں اور یہ مانتے آئے ہیں کہ یہ حق صرف علی اور اولاد ِعلی میں سے ان کا ہے جنہیں اللہ تعالی نے چنا۔ ہم صرف اور صرف ان حضرات کی اطاعت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اب ایسا شخص جو یہ عقیدہ رکھے کہ ناجائز حکمران کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جائز امام کو قتل کرنا اس کا فرض ہے، وہ کسی بھی طرح سے (عقیدتی) شیعہ کے معنوں میں نہیں لیا جاسکتا۔ اس کے برعکس، ایک برے حکمران کی غیرمشروط اطاعت کرنے کا یہ عقیدہ اہل ِسنت والجماعت کا ضرور ہوسکتا ہے۔

شمر کے خود کے اعتراف سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ جس وجہ سے شمر حضرت علی کا حامی تھا، بالکل اسی وجہ سے وہ یزید کا حامی بھی تھا۔ اور یہ وجہ وہ عقیدہ تھی جس کے مطابق حکمران ِوقت یا سربراہ ِمملکت کی اطاعت کرنی لازمی ہے کیونکہ وہ سربراہ ِمملکت ہے۔ شمر کے لئے صفین میں حضرت علی کی طرف داری کرنا اس لئے نہ تھا کو علی رسول اللہ کے بلافصل جانشیں اور امام ِوقت تھے، بلکہ اس لئے تھا کہ وہ خلیفہ تھے۔ جب یزید حکمران بن گیا، شمر نے یہی نظریہ دہرادیا ۔

جواب نمبر 4: سنی محدث کا شمر سے حدیث قبول کرنا شمر کے سنی عقیدہ کی سند ہے




مشہور و معروف تابعی اور اہل ِسنت کے عالم ِدین جناب ابو اسحاق السبیعی (المتوفی 129 ھ) کے لئے شمر کی ذات دینی معلومات حاصل کرنے کا ایک ذریعہ تھی یعنی شمر ان کے نزدیک ایک راوی ِحدیث کا درجہ رکھتا تھا۔ علامہ ابواسحاق کے متعلق امام ذہبی اپنی کتاب 'سیراعلام النبلاء' ج 5 ص 392 میں لکھتے ہیں:

وہ کوفہ کے شیخ، عالم اور محدث تھے

اپنی دوسری کتاب 'تذکرہ الحفاظ' ج 1 ص 114 میں لکھتے ہیں:

فضیل بن غزوان نے کہا ہے کہ ابواسحاق ہر تین روز میں ایک قرآن ختم کرتے تھے اور یہ کہا گیا ہے کہ وہ بہت زیادہ روزے رکھتا کرتے اور راتوں کو بہت زیادہ نماز پڑھا کرتےاور اپنی عزت کی حفاظت کرتے تھے۔ وہ علم کا منبہ تھے، ان کے کئی مناقب ہیں.

اب جب بم شمر کی سوانح پڑھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سنی مذہب کے مندرجہ بالا شیخ، عالم ِدین و محدث، نیک و ایماندار انسان شمر کو اپنے مذہب کی کتابوں کا ایک راوی تسلیم کرتے تھے۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب 'میزان الاعتدال' میں شمر کی سوانح میں لکھا:

وعنه أبو إسحاق السبيعي

اور اس سے روایت کی ابواسحاق السبیعی نے

یہی وجہ ہے کہ اہل ِسنت مذہب میں بلند مقام رکھنے والی کتاب 'مسند احمد بن حنبل' میں موجود روایت کی سند میں اس لعنتی قاتل ِحسین کا نام ساتھ ہے۔


شبیث بن ربعی




سپاہ صحابہ جیسے ناصبی دعوٰی کرتے آئے ہیں کہ شیعان ِعلی نے امام حسین (ع) کو خطوط بھیجے اور کوفہ آنے کی دعوت دی اور اس سلسلے میں ایک شخص جسے ناصبی یقینأ شیعہ ہونے کا دعویٰ کرینگے وہ شبیث بن ربعی ہے جس کا امام حسین (ع) کو خط لکھنا تاریخ کی کتابوں میں مروی ہے
حوالہ : تاریخ طبری ، ج 10 ص 25 ۔ 26 انگریز ترجمہ
البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1013 نفیس اکیڈمی کراچی

اور جب امام حسین (ع) کی ملاقات اس شخص سے ہوئی اور پوچھا 'کیا تم نے مجھے نہیں لکھا کہ پھل پک چکے ہیں صحن سرسبز ہوچکا ہے آپ ہمارے پاس آئین بلاشبہ آپ جمع شدہ فوج کے پاس آئیں گے؟ تو اس نے کہا :' ہم نے خط نہیں لکھے' (حوالہ : البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1067 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی)

ہم یہاں یہ بات واضح کرتے چلیں کہ اس شخص سے شیعہ مذھب کا کسی بھی طرح کوئی واسطہ نہیں ۔ یہ دغہ باذ شخص جسے ناصبی بلاشبہ شیعہ ہونے کا دعویٰ کرینگے دراصل علما ء اہل ِسنت کی نگاہوں میں ان کے مذھب کا ایک معتبر راوی ِ حدیث ہے ۔
امام ذہبی لکھتے ہیں:

یہ وہ شخص ہے جس نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی اور ثالثی رد کردی اور بعد میں نادم ہوا ۔۔۔ اس نے علی حذیفہ سے حدیث بیان کی ہے۔ محمد بن کعب کردی اور سلیمان بن تمیمی نے اس سے سنسن ابو داؤد میں حدیث بیان کی ہیں
سیرا علام النبلاء ، ج 4 ص 150

علامہ ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب تھذیب التھذیب ، ج 4 ص 303' پر لکھتے ہیں:

شبث بن ربعی التمیمی الیربوعی ابو عبدالقدوس الکوفی ، جنہوں نے حذیفہ اور علی سے روایت کی ہیں اور جنہوں نے ان سے روایت کی ہے ان میں محمد بن كعب القرظی اور سلیمان التمیمی شامل ہیں۔ ۔۔دارقطنی کا کہنا ہے کہ وہ سجاح سے (تعلق رکھنے والے) موذن تھے۔ ابن حبان نے انہیں ثقات میں شمار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے بعض غلطیاں کیں ، بخاری اور مسلم نے ان سے روایت کی ہے جس میں حضرت فاطمہ نے ایک خادم کی فرمائش کی ۔ العجلی کہ کہنا ہے کہ یہ وہ فرد ہے جس نے عثمان کے قتل میں مدد کی اور پھر حسین کے قتل میں بھی حصہ لیا
http://www.almeshkat.net
(جلد 4 صفحہ 530)

ہم منصفان ِ اسلام سے انصاف کے طلب گار ہیں ۔ اس ناصبی ۔ خارجی کی زندگی کا جائزہ لیں ۔ کوئی بھی حقیقت پسند شخص یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ یہ شیعان ِ اھل ِبیت میں سے تھا۔ امام حسین (ع) کو خط تحریر کرنے والا یہ شخص بقول ناصبیوں کے شیعہ تھا لیکن یہ شخص انہی کی صحاح ستہ کا معتبر راوی ہے۔ امام حسین (ع) کو خط لکھنے کے باوجود یہ شخص شیعہ نہیں کہلایا جا سکتا کیونکہ یہ کبھی بھی حقیقتأ شیعہ نہ تھا بلکہ ایک فسادی انسان تھا جس کی پوری زندگی فتنہ انگیزی میں گزری ۔ ہم سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا اھل ِبیت سے محبت رکھنے والے انہی کے قاتلوں اور غداروں کو اپنے مذھب میں اہم درجہ دے سکتے ہیں ؟

کیا ایسے لوگوں کی گواہی قابل قبول ہو سکتی ہے؟ کیا آپ ایسے شخص کی گواہی پر بھروسہ کر سکتے ہیں جس نے آپ کے اپنے نواسے کو نا جائز قتل کیا ہو؟ اگر نہیں تو آپ اور آپ کے اماموں کی شرم اُس وقت کہاں چلی گئی جب آپ نے رسول اللہ (ص) کے نواسے کے قاتلوں کی گواہی کو قابل ِ بھروسہ تسلیم کیا ؟کیا ایسا رویہ یاد ِ حسین اور رسول اللہ (ص) کی توہین نہیں؟ کیا واقعی ایک سچا عاشق ِ رسول (ص) اس قسم کا عقیدہ رکھ سکتا ہے؟ ناصبیوں ذرہ سوچو!

قاتلین ِحسین کے ناصبی اور انصار ِ حسین کے شیعہ ہونے کے چند اور شواہد





ثبوت نمبر 1:




حسین بن علی (ع) جب مکہ سے روانہ ہو کر کوفہ کے قریب پہنچے تو حصیص بن تمیم کے حکم سے حُر بن یزید ایک ھزار کی فوج کے ساتھ سدراہ ہونے کے لئے آگیا اور وہ امام حسین (ع) کے ساتھ ہے تاکہ انہیں واپس مدینہ جانے نہ دے اور چلتے چلتے یہ قافلہ نینوا پہنچا ۔ اسی وقت ایک مسلح ناقہ سوار کوفہ کی جانب سے آتا دکھائی دیا جس کا دونوں طرف کے لوگ بےچینی سے انتظار کر نے لگے ۔ جب وہ قریب پہنچا تو اُس نے حُر اور اصحاب ِ حُر کو تو سلام کیا لیکن حسین (ع) اور ان کے اصحاب کو سلام نہ کیا ۔ وہ ابن زیاد کا خط لایا تھا حُر کے نام جس میں لکھا تھا:

میرا قاصد اور خط جب تمہیں پہنچے تو حسین کو بہت تنگ کرنا ۔ سختی کرنا ان کو ایسی جگہ اترنے دینا جہاں چٹیل میدان ہو کوئی پناہ کی جگہ نہ ہو جہاں پانی نہ ہو
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 195 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی

امام حسین (ع) کے اصحاب میں سے ابواشعثاء یزید بن مہاجر کندی نے خط لانے والے کو پہچان لیا اور پکار کر کہا:

کیا مالک بن نسیر بدی ہے ؟ اس نے کہا : ہاں ! ابواشعثاء نے کہا تیرا برا ہو ، تُو کیا پیغام لیکر آیا ہے؟اس نے جواب دیا : جو پیغام میں لایا ہوں اس میں اپنے امام کی میں نے اطاعت کی اور اپنی بیعت کو پورا کیا ۔ ابواشعثا نے کہا : تُو نے خدا کی نافرمانی کی اور اپنے امام کی اطاعت کر کے خود کو ہلاک کیا عارونار کو اختیار کیا ۔ خدا نے فرمایا ہے:
ہم نے کچھ امام ان میں پیدا کیا دیئے ہیں جو کہ دوزخ میں لیجانے کو پکارتے ہیں اور روز ِ قیامت ان کی مدد نہ کی جائیگی ۔
بس ایسا ہی تیرا امام ہے
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 196 ؛ نفیس اکیڈمی کراچی

معزز قارئین! یہ مالک بن نسیر کون ہے ؟ یہ وھی ھے کہ روز ِ عاشور جب امام حسین (ع) زخموں سے چور ہو کر زمین پر تشریف لا چکے تھے تو وہ شقی آیا اور حضرت کے سر اقدس پر تلوار لگائی جو امامہ کو کاٹ کر سر میں اتری اور تمام عمامہ خون سے تر ہوگیا۔(طبری ، ج 6 ص 257)

اس کے یہ الفاظ "اپنے امام کی میں نے اطاعت کی اور اپنی بیعت کو پورا کیا" صاف بتلا رہے ہیں کہ وہ یزید کو امام ِ وقت تسلیم کرتے ہوئے اس کی بیعت کا پابند تھا اور یہ اس کی شیعان ِعلی کے مذھب سے لاتعلقی اور اہل ِ سنت سے وابستگی کی بہترین دستاویز ہے جیسا کہ اہل ِ سنت یزید کو چھٹا خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور بخاری کے مطابق خلیفہ دوم کے فرزند اور ان کے چہیتے صحابی عبدااللہ ابن عمر کا بھی یہی عقیدہ تھا۔ اس کی تفصیلات اگلے اباب میں بھی آرہی ہیں۔

ثبوت نمبر 2:



جس وقت مسلم بن عقیل کوفہ میں آکر فرزند رسول (ص) کی جانب سے بیعت لے رہے تھے اور بنی امیہ کے مظالم سے گھبرائی ہوئی خلقت اس موقہ کو غنیمت جان کر ٹوٹ پڑی تھی عین اس وقت یزید کو کوفہ سے عبد اللہ بن مسلم حضرمی کا ایک خط آجاتا ہے جس میں لکھا تھا:

مسلم بن عقیل کوفہ میں آگئے ہیں۔ شیعوں نے حسین بن علی کے نام پر ان کی بیعت کرلی ہے۔ اگر تمہیں کوفہ کی خواہش ہے تو کسی زبردست شخص کو حاکم کر کے بھیجو جو تمہارے حکم کو یہاں جاری کرے ۔ تمہارے دشمن کے ساتھ وہ سلوک کرے جو تم خود کر سکو۔ نعمان بن بشیر یا کمزور ہیں یا کمزور بنتے ہیں۔
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 154 ، نفیس اکیڈمی کراچی

پہلا شخص یہی تھا جس نے یزید کو لکھا ۔ اس کے بعد عمارہ بن عقبہ نے اسی مضمون کو لکھا۔ اس کے بعد عمر بن سعد نے یزید کو لکھا۔ یزید نے اس خط کو دیکھ کر جو فرمان ابن زیاد کو لکھا وہ قابل دید ہے:

میرے شیعہ جو کوفہ میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے کہ کوفہ میں ابن عقیل مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے جمیعت تیار کر رہے ہیں ۔ میرا یہ خط دیکھتے ہی تم کوفہ کی طرف روانہ ہوجاؤ ۔ وہاں جا کر مسلم بن عقیل کو اس طرح ڈھونڈو جیسے کوئی نگینے کو{ڈھونڈتا ہے۔ انہیں یا تو گرفتار کرلینا یا قتل کر ڈالنا یا شہر سے نکال دینا
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 154 نفیس اکیڈمی کراچی

محترم قارئین! پہچان لیا ہوگا یہ عمر سعد کون ہے جو اس خط کے لکھنے والوں میں ہے ۔ بلاشبہ یہ وھی شقی سپاہ سالار ہے جو کہ حسین ابن علی (ع) کے قتل کے لئے بھیجا گیا اور اسی نے امام حسین (ع) کی طرف پہلا تیر داغا تھا۔ (تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص213 ، نفیس اکیڈمی کراچی)۔

اس کے یہ الفاظ کہ " شیعوں نے حسین بن علی کے نام پر ان کی بیعت کرلی ہے" صاف ظاہر کرہے ہیں کہ اس شخص کی جماعت کا شیعان ِعلی کی جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا اور پھر یزید (لا) کی یہ تحریر کہ "میرے شیعہ جو کوفہ میں ہیں انہوں نے مجھے لکھا ہے" بتلا رہے ہیں کہ یہ شخص یزید (لا) کا شیعہ اور اس کی خلافت کو تسلیم کرنے والی جماعت سے تھا ۔ عمر ابن سعد کا مذھب ِاھل سنت میں اہم راوی ِ حدیث ہونا اور یزید کا سُنی اور ناصبیوں کا چھٹا خلیفہ ہونے کی تفصیلات آگے آرہی ہیں۔ کیا اب بھی نواصب قاتلین ِ حسین کو شیعان ِعلی کہیں گے ؟

ثبوت نمبر 3:




ہم تاریخ ِ کربلا میں پڑھتے ہیں کہ روز عاشور جب جنگ چھڑ چکی اور انصار ِحسین (ع) کی اکثریت قتل ہوچکی اس وقت یزید بن معقل لشکر ِ عمر سعد کی صف میں سے باہر نکلا اور اور بریر بن خضیر کو آواز دے کر کہنے لگا۔

کیوں بریر بن حضیر تم نے دیکھ لیا کہ خدا نے تمہارے ساتھ کیا کیا ؟ ۔ بریر نے جواب دیا: " وللہ ! خدا نے میرے ساتھ بھلائی کی اور تیرے حق میں برائی کی۔وہ کہنے لگا۔ " تم نے جھوٹ کہا ۔ تم تو کبھی جھو ٹ نہیں بولتے تھے ۔ تمہیں یاد ہوگا کہ بنو لوفان میں میں تمہارے ساتھ پھر رہا تھا اور تم یہ کہتے جاتے تھے کہ عثمان بن عفان نے اپنے نفس کے ساتھ اسراف کیا اور معاویہ گمراہ اور گمراہ کنندہ ہیں اور امام ِ ہدیٰ و برحق علی بن ابی طالب ہیں ۔ بریر نے کہا : ہاں یہی میرا عقیدہ ہے اور یہی میرا قول ہے ۔ یزید بن معقل کہنے لگا : اس میں کوئی شک نہیں کہ تو گمراہ ہے۔ بریر نے کہا آؤ ہم تم مباہلہ کریں پہلے خدا سے دعا مانگیں کہ جھوٹے پر وہ لعنت کرے اور اس کے بعد ہم تم لڑینگے ۔ اب ان دونوں نے خدا کی طرف ہاتھوں کو بلند کرکے یہ دعا کی کہ جھوٹے پر عذاب نازل ہو اور جو راہ ِ راست پر ہو وہ گمراہ کو قتل کرے۔
اس کے بعد دونوں لڑنے کو بڑھے۔دو دو چوٹیں ہوئی تھیں کہ یزید کا ایک اوچھا سا وار بریر پر پڑا جس سے کوئی ضرر بریر کو نہیں پہنچا ۔ بریر نے جو تلوار ماری وہ مغفر کو کاٹنتی ہوئی دماغ تک پہنچی ، وہ اس طرح گرا کہ معلوم ہوا پہاڑ سے نیچے آرہا ہے اور بریر کی تلوار اُسی طرح شگاف زخم میں موجود تھی۔ بریر تلوار کو زخم میں سے کھینچ رہے تھے
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 215 نفیس اکیڈمی کراچی

کیا اب بھی معلوم نہ ہوا کہ انصار ِ حسین (ع) کا مذھب کیا تھا اور مخالف جماعت کس فرقہ سے تعلق رکھتی تھی ؟ انصار ِ حسین جناب ِ بریر عثمان کو اپنے نفس کے ساتھ اسراف کرنے والا ، معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کنندہ اور حضرت علی (ع) کو امام ِ بر حق تسلیم کرتے تھے جو کہ سراسر شیعہ اثنا عشری عقیدہ ہے اس کے بر عکس عمر ابن سعد کی فوج کے یزید بن معقل کی نگاہ میں بریر یہ عقائد رکھنے کی وجہ سے گمراہوں میں سے تھا بالکل اُسی طرح جس طرح آج سُنی حضرات شیعوں کو انہی عقائد کی بنا پر گمراہ پکارتے ہیں ۔

اب بھی ہمارا سپا ہ صحابہ اور ان جیسے دیگر نواصب جو شیعان ِعلی کو قاتل ِحسین اور خود کو محب ِحسین کہتے ہیں،ایسے ناصبیوں سے سیدھا سوال ہے۔

"کیا تم لوگ انصارِحسین (ع) جناب بریر بن حضیر کی طرح عثمان کو اپنے نفس کے ساتھ اسراف کرنے والا ، معاویہ کو گمراہ اور گمراہ کنندہ اور حضرت علی (ع) کو امام ِ بر حق تسلیم کرتے ہو ؟ اگر ہاں تو تم بھی شیعہ اور محب ِ انصاران ِ حسین ہو گئے، اگر نہیں، تو تمہارا مذھب بھی وہی ہوا جو یزید بن معقل کا تھا جو ان عقائد کو گمراہ تسلیم کرتا تھا اور جو ابن سعد کے لشکر سے تھا"

اسکے علاوہ بریر بن حضیر اور یزید بن معقل کے درمیان جس بات پر مباہلہ ہوا تھا وہ بھی اور اس مباہلہ کا نتیجہ بھی تاریخ کے عیاں اوراق میں موجود ہے۔ اس سے حق و باطل کا نقشہ بھی بغیر کسی حجاب کے سامنے آجاتا ہے اور معلوم ہوجاتا ہے کہ حق کس طرف تھا اور وہ کیونکر ظاہر ہوا۔

ثبوت نمبر 4:




بریر جب لڑ بھڑ کر قتل ہوئے تو ان کا قاتل کعب ازدی فتح و ظفر کی مسرت اور انعام کی خوشگوار توقعات لئے ہوئے تھا۔ اس کی بہن یا بیوی نواز بنت جابر نے کہا:

تو نے فرزند فاطمہ کے مقابلہ میں شرکت کی ،تو نے سید ِ قارئین [بریر] کو قتل کیا، تو کیسے اجر عظیم کا مستحق ہوا ؟ واللہ ! میں تجھ سے کبھی بات نہ کرونگی
تاریخ طبری ، ج 4 حصہ 1 ص 216 ، نفیس اکیڈمی کراچی

کعب ازدی نے اپنی برچھی کی مدح میں اور بنی حرب کی خوشامد میں اور عبدی پر احسان کرنے کی مغافرت میں کچھ اشعار کہے جو اصل عربی تاریخ طبری میں موجود ہیں۔

لوگوں سے دریافت کر ، تجھے معلوم ہوگا ، حسین والے دن ، جب نیزے جنگ کے لئے سیدھے ہوچکے تھے۔
کیا میں نے بہترین طریقے پر انجام نہیں دیا اُس امر کو جس کا تجھے صدمہ ہے ؟ اور عالم جنگ میں اس کرانمایاں کے انجام دینے میں مجھ سے کوئی کوتاہی نہیں ہوئی۔
میرے پاس ایسا نیزہ تھا جس نے جنگ میں دغا نہیں کیا اور تلوار تھی جس کی دھار تیز اور کاٹ دار تھی۔
میں نے تلوار کو کھینچ لیا ایسی جماعت کے قتل کے لئے کہ جن کا مذھب میرے مذھب سے جداگانہ ہے اور میرا دارومدار تو ابوسفیان کی اولاد پر ہے۔...
کوئی میرا پیغام ابن زیاد سے مل کر پہنچادے کہ میں بجان و دل خلیفہ ِ وقت کا مطیع و طابع فرمان ہوں
تاریخ طبری (عربی)، جلد 6 صفحہ 247۔ 248

"لیس دینھم بدینی" (جن کا مذھب میرے مذھب سے جداگانہ ہے) کا فقرہ بتا رہا ہے کہ اس کا مذھب انصار ِامام حسین (ع) کے مذھب کے خلاف ہے۔ انصار ِحسین کا مذھب تو جناب ِ بریر نے کھل کر اوپر بیان کردیا ہے ۔ اگر سپاہ صحابہ جیسے نواصب بریر کے بتائے ہوئے مذھب کو اپنا مذھب تسلیم کرتے ہیں تب ہی وہ شائد اپنے آپ کو محب ِ انصار ِ حسین (ع) کہ سکتے ہیں اور اگر وہ اس عقیدہ کے خلاف ہیں تو انہیں دشمنان ِ حسین (ع) میں شمار کرنے میں شرم نہیں آنی چاہئے!

ثبوت نمبر 5:




ابن کثیر لھکتے ہیں کہ ابن زیاد نے ہانی بن عروہ کو پکڑ کر اس پر تشدد کیا اور جب ہانی کے قبیلے والے ابن زیاد کے محل کے دروازے پر جمع ہوگئے تو ابن زیاد نے اپنے وفادار قاضی شریح کو کہا کہ وہ ہانی کے قبیلے والوں کو مطمئن کرے۔

عبید اللہ نے کہا:'اللہ نے تمہارا خون میرے لئے حلال کردیا ہے کیونکہ تو حروری ہے'۔ پھر اس کے حکم سے اسے گھر کے ایک پہلو میں قید کردیا گیا ، اس کی قوم بنو مذحج عمرو بن الحجاج کے ساتھ آکر محل کے دروازہ پر کھڑے ہوگئے ان کا خیال تھا کہ اسے قتل کردیا گیا ہے عبید اللہ ابن زیاد نے شور سُنا تو اس نے قاضی شریح سے کہا کہ ان کے پاس جا کر ان سے کہو ، امیر نے اسے صرف اس لئے قید کیا ہے کہ اس سے مسلم بن عقیل کے بارے میں پوچھے، سو قاضی شریح نے ان سے کہا کہ تمہارا آقا زندہ ہے اور ہمارے بادشاہ نے اسے اتنا مارا ہے جس نے اس کی جان کو نقصان نہیں دیا ، وہ واپس چلے گئے
البدایہ والنہایہ ، ج 8 ص 1018 ۔ 1019 نفیس اکیڈمی کراچی

اگر شیعوں پر الزام لگانے والے نواصب نے ابن زیاد کے اس دوسرے وفادار کتے کو نہیں پہچانا ہے تو ہم بتائے دیتے ہیں کہ یہ شخص علماء ِ اہل سنے کی آنکھوں کا تارا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی سب سے معتبر کتاب بخاری میں بھی اس شخص سے روایت لی گئی ہیں۔ ابن حجر عسقلا نی لکھتے ہیں:

شريح بن الحارث بن قيس بن الجهم بن معاويہ بن عامر الكندی ابو اميہ الكوفی القاضی جنہیں شريح بن شرحبيل یا شرحیل بھی کہا جاتا ہے بخاری اور نسائی میں روایت کی ہیں۔۔۔ احمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ابن معین نے ان کے بارے مین کہا کہ وہ ثقہ ہیں۔۔۔ العجلی نے کہا کہ وہ کوفی ، تابعی اور ثقہ ہیں۔۔۔ابن سعد نے کہا ان کا انتقال 79 ھ میں ہوا اور وہ ثقہ ہیں
تھذیب التھذیب ، ج 4 نمبر 574

اگر اب بھی سپاہ صحابہ یا دیگر نواصب شیعوں پر قتل ِ حسین کا الزام لگائیں تو ان کی نجاست و جہالت پر کسی ذی شعور انسان کو شک نہیں ہوگا جیسا کہ امام حسین (ع) کے دشمنوں کی تعریف کر کے اور ان سے اپنے مسلک کی معتبر کتابوں میں احادیث نقل کرکے یہ واضح کردیا ہے کہ دشمنان ِ حسین کا تعلق ان کے مذھب سے ھو تو ھو لیکن شیعہ امامی مذھب سے ان کا دور دور کا کوئی واسطہ نہیں۔

Comments