ذیل کی دو چیزوں میں فرق کیجئے:



اسلامی شریعت میں کسی بھی شخص پر سب و شتم کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے۔


مگر لعنت و تبرا عین اسلامی افعال ہیں ۔ یہ "سنت الہیہ " و "سنت رسول" ہے کیونکہ اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے بذات خود لعنت کی ہے اور قرآن و سنت میں انکا مکمل ثبوت موجود ہے۔ لعنت کا مطلب ہے کہ کسی کے غلط فعل یا ظلم پر اللہ سے اسکے حق میں بددعا کرنا۔ جبکہ تبرا کا مطلب ہے اس سے بیزاری ظاہر کرنا۔


مذہب اہلبیت میں کسی پر سب و شتم کرنے کی ہرگز کوئی اجازت نہیں۔ اگر کوئی جاہل شخص یہ کام سر انجام دیتا ہے تو یہ اسکا اپنا ذاتی فعلِ حرام ہے اور اسکا مذہب اہلبیت سے کوئی تعلق نہیں۔


ائمہ اہلبیت علیھم السلام کی تعلیمات کے مطابق فعل حرام انجام دینے پر تنقید کی جا سکتی ہے، اور اس سے بیزاری اختیار کی جا سکتی ہے، اور اگر بہت بڑے ظلم کا ارتکاب کیا ہے تو اس پر لعنت (اللہ سے بددعا) کی جا سکتی ہے، مگر سب و شتم کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا مومن کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے اور اللہ اسکے متعلق فرماتا ہے:


[سورۃ النساء، آیت 93] وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

ترجمہ:

اور جو شخص کسی مسلمان کو قصداً قتل کرے تو اس کی سزا دوزخ ہے کہ مدتوں اس میں رہے گا اور اس پر اللہ غضبناک ہوگا اوراس پر لعنت کرے گا اور اس نے اس کے لئے زبردست عذاب تیار کر رکھا ہے

اب چاہے یہ عمدا قتل کسی عام مسلمان سے ہو، یا پھر کسی صحابی یا صحابی زادے سے ہوا ہو، اسلامی شریعت میں اسکا ایک ہی قانون ہے اور اسکی ایک ہی سزا ہے۔

صحابہ پرستش کی بیماری میں مبتلا ہو کر اسلامی شریعت کو تبدیل کرنا

مسئلہ یہ ہے کہ آج اگر ہم کسی صحابی کے غلط فعل کا تذکرہ کرنا چاہیں، اس پر تنقید کرنا چاہیں، اس سے تبرا (بیزاری) اختیار کرتے ہوئے اللہ سے انکے حق میں بددعا (لعنت کریں) تو ناصبی حضرات فوراً پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہ یہ لوگ کافر ہو گئے ہیں کیونکہ یہ صحابہ پر سب و شتم (برا بھلا کہنا، گالیاں دینا) کر رہے ہیں، حالانکہ ان تینوں چیزوں (تنقید، تبرا و لعنت) کا سب و شتم سے کوئی تعلق نہیں۔