قاتلان ِامام حسین کون؟

یسے تمام نواصب یہ جھوٹ پھیلاتے آئے ہیں کہ امام حسین کے قاتل شیعان ِ اھل بیت (ع) ھی تھے۔ اس آرٹیکل میں ھم اس جھوٹے دعوٰی میں موجود تمام خامیوں پر روشنی ڈالینگے۔ اس موضوع کے متعلق ناصبی حضرات کے دٰعوں کا خلاصہ یہ ہے۔

1. شیعوں نے امام حسین (ع) کو خطوط کے ذریعے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں اور اپنا امام تسلیم کر سکیں۔

2. امام حسین (ع) نے حضرت مسلم بن عقیل کو اپنا نمائندہ بنا کر کوفہ روانہ کیا تاکہ وہ وہاں کی صحیح صورتحال کا جائزہ لے سکیں۔

3. شیعوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ذریعے امام حسین کی بیعت کی۔

4. عبیداللہ ابن ذیاد کی کوفہ آمد پر انہی شیعوں نے مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا۔

5. شیعہ امام حسین کی مدد کرنے سے قاصر رہے جس کی وجہ سے اُن کا قتل ہوا۔

ھم نے اس آرٹیکل میں تمام تاریخی شواھد کو مد ِنطر رکھتے ہوے اھل ِکوفہ کے اصل عقیدہ کو بیان کیا ہے اور ساتھ میں یہ بھی واضح کیا ھے کہ سید الشھداء اور ان کے رفقاء کے اصل قاتل کون تھے اور آج کون اان قاتلان کے پیروکار ہیں۔​
خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعہ بالمقابل عقیدتی امامی شیعہ
آج کل سپاہ صحابہ اور دیگر ناصبی لوگوں کی جانب سے بہت سننے میں آتا ہے کہ شیعوں نے حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین اور اہل بیت کے دیگر آئمہ کا ساتھ نہ دیا یا انہیں قتل کر دیا اور اس سلسلے میں تاریخ کی کچھ کتابوں سے حوالاجات بھی پیش کر دئے جاتے ہیں لیکن سپاہ صحابہ کے مکار ناصبی صرف عام لوگوں کو ہی بیوقوف بنا سکتے ہیں، ہم شیعانِ اہل بیت کے سامنے ان باتوں اور ایسے حوالاجات رکھنے کی ان کی کبھی ہمت نہیں ہوگی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہم اس تاریخی حقیقت سے نا آشنا نہیں کہ پچھلے زمانے میں شیعہ ہونے کا وہ مطلب نہیں تھا جو آج ہے ، اُس وقت تو سب ہی کو بشمول جنہیں آج سنی کہا جاتا ہے ، شیعہ ہی کہا جاتا تھا۔ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے کس شیعہ گروہ نے وہ حرکات کیں جن کا الزام ناصبی حضرات آج کل کے شیعوں پر لگا رہے ہیں۔ بس اگر یہ بات سمجھ میں آگئی تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائیگا اور سپاہ صحابہ جیسے ناصبیوں کے مکروہ چہرے عیاں ہو جائینگے اور جو انشاء اللہ ہم اس آرٹیکل میں کرینگے۔

انصار ویب سائٹ کے مصنف کی پیٹ میں بھی کچھ ایسا ھی درد اٹھا

اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ جن لوگوں نے سیدنا حسین کی مدد نہیں کی انہیں غیر شیعہ کہا جائے۔ جعفری لکھتا ہے

'ان میں سے جنہوں نے امام حسین کو کوفہ بلایا اور پھر وہ 1800 جو امام حسین کے نمائندمسلم بن عقیل کی خدمت میں آئے وہ تمام مذہبی اعتبار سے شیعہ نہیں تھے بلکہ سیاسی بنیاد پر علی کے گھرانے کے حمائتی تھے۔ یہ ایک فرق جو قدیم شیعہ تاریخ جاننے کے لئے واضح طور پر ذہن نشیں کر لینا چاہئے'

سید نا حسین کا ساتھ چھوڑنے والوں کو گھرانہِ علی کے پیروکاروں سے الگ رکھنے کا جعفری کا مقصد عیاں ہے۔ وہ اس حقیقت پر شرم سار ہے کہ یہ شیعہ ہی تھے جنہوں نے اپنے امام کو بغاوت کی قیادت کرنے کے لئے دعوت دی اور پھر ان کی مدد نہ کی۔ ہم جس چیز پر جعفری کے مذہبی اور سیاسی پیروکاروں میں فرق کرنے کو رد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ خود سید نا حسین نے کوفیوں کو ایک سے زیادہ مرتبہ اپنا شیعہ کہا۔ یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ کوفہ کو اپنا نہیں تسلیم کرتے لیکن اپنی پہچان تحریک توابین کے ساتھ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ تحریکِ توابین کی ابتداء میں کی گئی تقاریر سے یہ واضح ہے کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے سید نا حسین کو آنے کی دعوت دی اور بعد میں ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں ان کا یہی نام ان کی ندامت کو ظاہر کرتا ہے۔ شیعوں کی جانب سے سید نا حسین کا ساتھ نہ دینے کے گناہ سے دور رہنے کی کوشش اور کچھ نہیں بس ایک ضعیف کوشش ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اہل سنت کو یہ نام تو بہت بعد میں ملا، جس زمانے کا ناصبی مصنف نے ذکر کیا اُس دور میں تو سب کو شیعہ ہی کہا جاتا تھا جن میں آج کل کے اہل سنت بھی شامل تھے لہذا ناصبی مصنف جب پچھلےدور کا ذکر کرے تو واضح کرے کہ وہ کس شیعہ گروہ کی بات کرتا ہے؟ معروف شیعہ مخالف اسکالر محدث شاہ عبد العزیز دہلوی نے بھی تصدیق کی ہے کہ اُس وقت تمام مسلمان شیعہ ہی کہلائے جاتے تھے۔

" اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ شیعہ اولیٰ کہ فرقہ سنیہ و تفضیلیہ ہر دو کو شامل ہے پہلے شیعہ کے لقب سے مشہور تھا اور جب غلاۃ ، روافض ، زیدیوں اور اسماعیلیوں نے یہ لقب اپنے لئے استعمال کیا اور عقائد و اعمال میں ان سے شر و قباح سرزد ہونے لگے تو حق و باطل کے مل جانے کے خطرہ سے فرقہ سنیہ اور تفضیلیہ نے اپنے لئے اس لقب کو ناپسند کیا اور اس کی جگہ اھل ِ سنت وجماعت کا لقب اختیار کیا
تحفہ اثنا عشری (اردو) ، صفحہ 16 ، نور محمد کتب خانہ ، آرام باغ کراچی

آج کل اثنا عشری یا امامی اہل تشیع ماضی میں "رافضی" کے نام سے جانے جاتے تھے۔ شیعہ کے لفظی معنی ہیں "گروہ" یا "حامی"۔ چونکہ اہلِ کوفہ نے جنگِ جمل و صفین میں علی ابن ابی طالب کا ساتھ دیا، اس لیے انہیں خالصتاً سیاسی معنوں میں"علی کا شیعہ" کہا جانے لگا یعنی حضرت علی کا حامی یا حضرت علی کا گروہ۔ اسکے مقابلے میں معاویہ کی فوج کو "شیعانِ معاویہ" یا پھر"شیعانِ عثمان" بھی کہا جاتا تھا۔ لیکن ان سیاسی شیعانِ عثمان یا شیعانِ علی کے علاوہ لفظ شیعہ کا استعمال ایک اور گروہ کے لئے بھی ہوتا تھا جو کہ اہل بیت علیہم السلام کا مذہبی اور عقیدتی معنوں میں سچا پیروکار تھا اور انہیں اللہ کی جانب سے براہ راست مقرر کردہ امام و خلیفہ بلافصل مانتا تھا اور جسے آج دنیا شیعہ اثنا عشری یا امامی شیعہ کے نام سے جانتی ہے، جنہوں نے کبھی بھی شیخین {یعنی حضرت ابوبکر و عمر} اور حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ دیگر شیعہ گروہ جن کا اوپر ذکر ہوا وہ ایسا کرتے تھے لہٰذا آج یہ لوگ اہلِ سنت و الجماعت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔

آجکل جس مذہبی و عقیدتی گروہ کو 'مامی شیعہ' کہا جاتا ہے، انہیں ماضی میں عثمانیوں کی طرف سے مذھبی معنوں میں 'رافضی' کہا جاتا تھا جبکہ لفظ 'شیعہ' سیاسی معنوں میں ہر اُس شخص کے لیے استعمال ہوتا تھا جو کہ فوجِ معاویہ کے خلاف فوجِ علی میں شامل تھا، یا جس نے معاویہ کے خلاف علی ابن ابی طالب (ع) کی حمایت کی حالانکہ مذہبی طور پر وہ شخص شیخین (پہلے دو خلفاء) کی خلافت کو جائز و برحق مانتا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لفظ شیعہ کا یہ سیاسی استعمال ختم ہوتا گیا اور صرف مذہبی گروہ باقی رہ گیا جو اپنے آپ کو مستقل 'الشیعہ' کہتا رہا اور شیخین کی خلافت کو ماننے سے انکار کرتا رہا، جبکہ اُسکے مخالف اُسے 'رافضی' کہتے رہے۔

ناصبی حضرات کی جانب سے سیاسی شیعت کے وجود کا انکار

ناصبی حضرات ابھی تک اس بات کے انکاری ہیں کہ شیخین کی خلافت ماننے والوں کو ماضی میں کبھی شیعہ بھی کہا جاتا تھا۔ انکے اس دعویٰ پر حیرت ہے کیونکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ ان سیاسی شیعوں کا وجود کئی سو سالوں تک رہا ہے۔ مگر پھر بھی آج اگر سپاہ صحابہ جیسے نجس ناصبی ان سیاسی شیعوں کے وجود کے منکر ہیں، تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ اپنے ماننے والوں کو ان سیاسی شیعوں کی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیں تو کوئی بھی اُنکے اس پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دے گا کہ امامی شیعوں نے حسین (ع) کو قتل کیا ہے، لہٰذا وہ اپنی شیعہ دشمنی کی دکان مسلسل چلاتے رہنے کی غرض سے اس تاریخی حقیقت سے اپنے پیروکاروں کو آگاہ نہیں کرتے۔

آئیے اب ہم ثابت کرتے ہیں کہ ان خلافتِ شیخین کو ماننے والے سیاسی شیعوں کا وجود مولا علی (ع) کے دور سے شروع ہو کر کئی سو سال تک جاری رہا۔ شاہ عبد العزیز دہلوی اپنی مشہور شیعہ مخالف کتاب میں لکھتے ہیں:

سب سے پہلے وہ مہاجرین و انصار اور تابعین اس لقب شیعہ سے منقلب تھے جو ہر پہلو میں حضرت مرتضیٰ کی اطاعت و پیروی کرتے تھے اور وقت ِ خلافت سے ہی آپ کی صحبت میں رہے ، آپ کے مخالفین سے لڑے اور آپ کے امر و نواہی کو مانتے رہے۔ انہی شیعہ کو مخلصین کہتے ہیں۔ ان کے اس لقب کی ابتدا 37 ہجری سے ہوئی