Pages

When the Holy Prophet (s) saw them, tears welled up in his eyes

اس روایت کا عربی متن چاہیے ہے اور اسکی سند کا کیا حُکم ہے؟ یہ روایت بھی غم آل محمد سے شروع ہوتی ہے اور صاف صاف بتلا رہی ہے کہ اہلبیت بیویاں نہیں تھیں جنہیں رسول ﷺ کے بعد کوئی مصائب نہیں جھیلنا پڑے بلکہ اہلبیت سے مراد آل محمد ہی ہے جو کہ فاطمہ زہرا و علی سے لیکر امام حسن عسکری و ولادت و غیبت مہدی تک مصائب کا سامنا کرتے رہے اور ان کے غم میں رسول ﷺ آنسو بھی بہا رہے ہیں۔

Sunan Ib Maja, Volume 1, page 517:

Narrated by Alqamah from Abdullah bin Masood:
One day we were sitting with Holy Prophet (s) while some children from the house of Bani Hashim came there. When the Holy Prophet (s) saw them, tears welled up in his eyes and he became pale.
Ibn Masood said that he told the Holy Prophet (s) "Your face reflects anxiety". The Holy Prophet (s) stated: "Exalted God has granted us, the Ahlulbait, Hereafter instead of worldly pleasure.
After me, soon my Ahlubait will face calamity, hardship and misery till people having black flags will rise from East and seek justice, which will be denied them. They will wage war, they will be supported and will be given what they were demanding. They will not accept until it is handed over to one from our Ahlulbait (i.e. Mahdi) .He will fill the earth with justice as it was filled with unjustice. Whoever amongst you is alive at that period,should try to reach them even if he has to tread on ice in that pursuit."

اخبار شہادت امام حسین (ع) اور حافظ بیہقی


اب ہم حافظ بیہقی کی کتاب "دلائل النبوہ " سے اخبار شہادت امام حسین (ع) کو نقل کریں گے . دلائل النبوہ کتاب کے متعلق علامہ ذہبی کہتے ہیں

"اس کتاب کو حرز جان بنانا چاہیئے یہ سراسر نور ھدایت ہے "

(المستطرفہ ،ص 165)

حافظ بیہقی باب اس طرح قائم کرتے ہیں

حضور (ص) کا خبر دینا اپنے نواسے ابوعبداللہ حسین بن علی بن ابی طالب (ع) کے شہید ہونے کی پھر ایسے ہی ہوا جیسے آپ(ص) نے خبر دی تھی اور اس موقع پر جو کرامات ظاھر ہوئیں جو دلالت کرتی تھیں ان کے نانا کی نبوت کی صحت پر

حدیث نمبر:1

پہلی حدیث جناب ام سلمہ (رہ) سے نقل کی گئی ہے جس کے مطابق جبرئیل نے شہادت امام حسین (ع) دی رسول اللہ (ص) کو اور خاک کربلا دی ،مکمل حدیث مندرجہ بالا سطور میں حافظ ابن کثیر کی تخریج میں ملاحظہ کریں

حافظ بیہقی اس حدیث کا متابع بھی لائے ہیں

حدیث نمبر:2

یہ حدیث ام الفضل بنت حارث والی ہے جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ولادت و شہادت امام حسین (ع) کی خبر دی ،یہ حدیث بھی ہم اوپر نقل کر آئیں ہیں

حدیث نمبر: 3

یہ حدیث بارش کے فرشتے والی ہے جس میں وہ رسول اللہ (ص) کو شہادت امام حسین (ع) کی خبر دیتا ہے اور خاک کربلا کی زیارت کراتا ہے

محقق دلائل النبوہ ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی حاشیہ میں لکھتا ہے

اس روایت (بارش کے فرشتے والی) کو مسند احمد بھی نقل کیا ہے اور صاحب مجمع الزوائد کہتا ہے : اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے اور اسناد حسن ہے

حدیث نمبر: 4

ابوسلمہ بن عبدالرحمان کہتے ہیں کہ عائشہ کا ایک بالا خانہ تھا .حضور (ص) جب جبرئیل سے ملنے کا ارادہ کرتے تھے تو اس میں ملتے تھے .ایک دن رسول اللہ (ص) اس پر چڑھ گئے اور عائشہ سے کہا کہ ان کی طرف نہ جھانکے،کہتے ہیں کہ اوپڑ کی سیڑھی عائشہ کے حجرے میں سے تھی.امام حسین(ع) داخل ہوئے اور اوپر چڑھ گئے ، ان کو معلوم نہ ہو سکا حتیٰٰ کہ وہ بالا خانے میں پہنچ گئے .جبرئیل نے پوچھا یہ کون ہے?فرمایا یہ میرا بیٹا ہے ،رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو پکڑ کر اپنی ران پر بٹھا لیا.جبرئیل نے کہاعنقریب اس کوآپ کی امت قتل کرے گی .رسول (ص) نے پوچھا کہ میری امت ? انہوں نے کہا جی ہاں ! اگر آپ چاہیں تو میں آپ (ص) کو اس سر زمین کی خبر دوں جس میں وہ قتل کئے جائیں گے.جبرئیل نے مقام الطف عراق کی طرف اشارہ کیا اور انہوں نے سُُرخ مٹی وہاں سے لے لی اور حضور (ص) کو وہ مٹی دکھا دی

دلائل النبوہ //حافظ بیہقی // سفر سادس // ص 468// تحقیق:ڈاکٹر عبدالمعطی قلعی // طبع الاولی 1408 ھ ، جز 7،دارالکتب العلمیہ بیروت

اخبار شہادت امام حسین (ع) اور حافظ جلال الدین سیوطی

الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب "الخصائص الکبریٰٰ " میں شہادت امام حسین (ع) کے حوالے سے اخبار رسول (ص) کی تخریج کی ہے

باب اس طرح قائم کرتے ہیں: حضرت امام حسین (ع) کی شہادت سے آگاہ فرمانا

حدیث نمبر1: پہلی حدیث حاکم اور بیہقی سے حضرت ام الفضل بنت حارث والی نقل کی ہے (جس کوہم اوپر علام البانی کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں )،اس لئے تکرار نہیں کر رہے

حدیث نمبر 2: یہ حدیث ابن راہویہ ، بیہقی اور ابو نعیم سے نقل کی ہے ،جناب ام سلمہ (رہ) سے ، اس حدیث کو ہم ابن کثیر کی تخریج میں نقل کر آئیں ہیں ،ملاحظہ کریں وہاں

حدیث نمبر 3: یہ بیہقی اور ابو نعیم سے انس بن مالک والی روایت بارش کے فرشتہ والی ہے جس میں فرشتہ خبر شہادت امام حسین (ع) لے کر آتا ہے،مندرجہ بالا سطور میں مراجع کریں

حدیث نمبر 4: ابو نعیم حضرت ام سلمہ (رہ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام حسن و حسین (ع) میرے گھر میں کھیل رہے تھے.جبرئیل اترے اور امام حسین (ع) کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے محمد (ص) ! آپ (ص) کی امت آپ کے بعد آپ کے فرزند کو شہید کر دے گی. جبرئیل مقتل کی مٹی بھی لائے جسے حضور (ص) نے سونگھا تو فرمایا اس سے کرب و بلا ء کی بُُو آرہی ہے ، پھر فرمایا: اے ام سلمہ ! جب وہ مٹی خون بن جائے تو جان لینا کہ میرا یہ بیٹا شہید کر دیا گیا ہے،چنانچہ میں وہ مٹی ایک شیشی میں محفوظ کر لی

حدیث نمبر 5: ابن عساکر محمد بن عمرو بن حسن سے روایت کرتے ہیں کہ نہر کربلاء کے پاس ہم امام حسین (ع) کے ساتھ تھے .آپ (ع) نے شمر ذی الجوشن کی طرف دیکھا تو فرمایا اللہ اور رسول نے سچ فرمایا.رسول (ع) نے فرمایا تھا : گویا میں ایک چتکبرے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اھل بیت (ع) کا خون پی رہا ہے
اور شمر برص کے مرض میں مبتلا تھا

حدیث نمبر 6: انس بن حارث والی روایت ،جس میں نصرت حسین (ع) کا کہا گیا ہے اوپر ابو نعیم کی تخریج میں ملاحظہ کریں

حدیث نمبر 7: بیہقی سے روایت نقل کی ہے جس میں جبرئیل خاک کربلا رسول اعظم (ص) کو دیکھاتے ہیں ،ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 8: جنگ صفین جاتے وقت گریہ علی (ع) مقام کربلا پر اور خبر شہادت دینا امام حسین (ع) کی ، ملاحظہ کریں مندرجہ بالا سطور میں

حدیث نمبر 9: ابو نعیم حضرت اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم امام حسین (ع) کی قبر کے مقام پر پہنچے تو حضرت علی (ع) نے فرمایا:یہاں ان کی سواریاں بیٹھیں گی.یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کا خون بہے گا.آل محمد (ع) کے نوجوانوں کو اس میدان میں شہید کیا جائے گا اور آسمان وزمین ان کے غم میں گریہ کناں ہوں گے

الخصائص الکبریٰٰ //جلال الدین سیوطی //ج 2//ص 362//اردو ترجمہ:مقبول احمد//طبع جون 2007، جز:2 ضیاءاالقرآن باکستان//باب:اخبار شہادت امام حسین ع

اخبار شہادت امام حسین (ع) اور حافظ ابو نعیم اصفہانی


ابو نعیم اصفہانی نے بھی دلائل النبوہ میں امام حسین (ع) کی شہادت کی احادیث کو جمع کیا ہے

ابو نعیم اصفہانی سرخی اس طرح قائم کرتے ہیں

امام حسین (ع) کی شہادت کے متعلق نبی (ص) نے جو ارشادات فرمائے

پہلی روایت انس بن مالک سے لے کر آئیں ہیں ،جو خبر بارش کے فرشتے والی جو کہ ہم مندرجہ بالا سطور میں مکمل نقل کر ئیں ہیں

اس روایت کے متعلق محقق کتاب ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی اس طرح لکھتے ہیں

اس روایت کو بیہقی نے ، احمد نے مسند میں روایت کیا ہے اور ابو یعلی ٰٰ ، بزار اور طبرانی نے عمارۃ بن زاذان کی سند سے روایت کیا ہے اور عمارۃ بن زاذان کو ایک جماعت نے ثقہ کہا ہے اور بعض نے ضعیف کہاہے.اور بقیہ رجال ابو یعلی ٰ رجال الصحیح ہیں ،مجمع الزوائد میں یہ بات ہیثمی نے کہی ہے

ابو نعیم ایک اور روایت لاتے ہیں جو کہ اس طرح ہے

سلیمان بن احمد کی روایت میں ہے کہ اسے نبی کریم (ص) نے سونگھا یعنی خاک کو ، تو فرمایا کرب اور بلا کی بو ہے اس میں ، تو کہتے ہیں ہم سنا کرتے تھے کہ حسین بن علی (ع) کربلا میں شہید ہوں گے

اسی طرح ایک اور روایت بھی نقل ہوئی ہے

انس بن حارث سے روایت ہے کہ میں نےسنا نبی کریم (ص) فرما رہے تھے میرا بیٹا سرزمین عراق میں شہید ہوگا ،تو جو شخص وہ دور پائے اس کی مدد کرے ،،کہتے ہیں چنانچہ یہ انس امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہوئے

دلائل النبوہ //ابونعیم اصفہانی //ج 2//ص 553//طبع الثانیہ 1406ھ ،جز 2 دارالنفائس بیروت//محقق: ڈاکٹر محمد رواس قلعہ جی//حدیث:492،493

اخبار شہادت امام حسین (ع) اور حافظ ابن کثیر


حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں مقتل حسین (ع) کے متعلق احادیث کو لکھا ہے.ابن کثیر اس طرح سُُرخی دیتا ہے

امام حسین (ع) کے قتل کے متعلق اخبار

ابن کثیر لکھتا ہے کہ حدیث میں امام حسین (ع) کے قتل کے متعلق بیان ہوا ہے

ابن کثیر پہلی روایت بارش کے فرشتے والی لے کر آیا ہے جو کہ انس بن مالک سے مروی ہے ،اس روایت کے مطابق ام سلمہ (رہ) نے خاک کربلا کو لے اپنے کپڑے کے پلو سے باندھ لیا

نوٹ : واضح رہے کہ بارش کے فرشتے والی روایت سند کے لحاظ سے حسن کے درجہ کی ہے

اس کے بعد ایک روایت ابن کثیر نقل کرتا ہے کہ

حضرت ام سلمہ (رہ) بیان کرتی ہیں کہ رسول (ص) ایک روز پہلو کے بل لیٹے تھے،آپ (ص) بیدار ہوئے ،تو آپ (ص) حیران تھے،پھر لیٹے تو سو گئے ،پھر بیدار ہوئے تو پہلی بار کے مقابلہ میں کم حیران تھے ،پھر لیٹے اور بیدار ہوئے تو آپ (ص) کے ہاتھ میں سرخ مٹی تھی ،جسے آپ (ص) الٹ پلٹ رہے تھے،میں نے پوچھا یارسول اللہ (ص) یہ مٹی کیسی ہے? فرمایا جبرئیل نے مجھے بتایا ہے کہ یہ سر زمین عراق میں حسین (ع) کے قتل ہونے کی جگہ ہے ،میں نے کہا اے جبرئیل ! مجھے اس زمین کی مٹی دکھائیے جہاں حسین (ع) قتل ہونگے پس یہ اس زمین کی مٹی ہے

اس کے بعد ابن کثیر نے ام الفضل بنت حارث والی روایت نقل کی ہے جس میں رسول اللہ (ص) نے شہادت حسین (ع) کی خبر پر گریہ فرمایا

نوٹ: ہم مندرجہ بالا سطور میں ام الفضل اور بارش کے فرشتے والی روایت نقل کر آئیں ہیں اس لئے ان کی تکرار نہیں کی

البدایہ والنھایہ//ابن کثیر//محقق:عبدالمحسن ترکی//ج:9//ص 234//طبع الاولیٰٰ 1418 ھ ،جز:21 الھجر بیروت //باب:اخبار مقتل حسین

اخبار شہادت امام حسین (ع) کی تخریج کتب اھل سنت سے


علامہ ناصر الدین البانی اور اخبار شہادت امام حسین
(ع)

علامہ البانی نے اپنی کتب میں احادیث خبر شہادت امام حسین (ع) کو صحیح کہا ہے . چنانچہ اپنی کتاب صحیح جامع صغیر میں لکھتا ہے کہ

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
علامہ بانی اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتا ہے کہ یہ صحیح ہے

صحیح جامع الصغیر // ناصر الدین البانی // ج: 1 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ عرب،جز 2 // ص : 73// حدیث : 61

مندرجہ بالا روایت البانی اپنی کتاب سلسلتہ الصحیحہ میں بھی لکھتا ہے

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرئل میرے پاس آئے اور مجھے خبر دی کہ میرے امت میرے بیٹے یعنی حسین (ع) کو قتل کرے گی اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے
اس کو حاکم نے بھی لکھا ہے اور بیھقی اپنی دلائل میں بھی اس روایت کو اس طرح لے کر آیئں ہیں

ام الفضل بنت الحارث نے کہ وہ رسول اللہ (ص) کے پاس داخل ہوئیں اور عرض کرنے لگی یا رسول اللہ (ص) ! میں نے آج بُُرا خواب دیکھا ہے .آپ (ص) نے پوچھا کہ کیا دیکھا ہے ? کہنے لگی کہ وہ بہت برا ہے آپ (ص) نے پوچھا کہ وہ کیا ہے ? کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ (ص) کے جسم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے .تم نے اچھا خواب دیکھا ہے.حضرت فاطمہ (ص) بچے کو جنم دے گی ، انشاء اللہ لڑکا ہوگا اور وہ تیری گود میں ہوگا.چنانچہ فاطمہ (ص) نے امام حسین (ع) کو جنم دیا .لہذٰٰا وہ میری گود میں آیاا جیسے رسول (ص) نے فرمایا تھا .میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاسس گئی اور میں نے بچے کو حضور (ص) کی گود میں رکھ دیا .اس کے بعد میری توجہ ذرا سی مبذول ہوگئی .پھر جو دیکھا تو رسول اللہ (ص) کی آنکھیں آنسو ٹبکا رہی تھیں .کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے نب (ص) میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں آپ کو کیا ہوا ? فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل آئے انہوں نے مجھے خبر دی کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو قتل کر گی ، اور میرے لیئےحسین (ع) کی مقتل گاہ سے سرخ نگ کی مٹی لے کر آئے تھے

حاکم نے اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ بخاری ومسلم ک شرط کے مطابق حدیث ہے

مگر ذہبی نے کہا ہے کہ یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے

مگر البابی یہاں ذہبی کا رد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں (البانی) یہ کہتا ہوں کہ ہمارے پاس بہت سے شواھد موجود ہیں جواس کوصحیح قرار دیتے ہیں جن میں سے احمد بن حنبل نے بھی درج کئے ہیں اور ان میں سے ایک شواھد یہ ہے کہ

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ (ص) آپ کا یہ بیٹا حسین (ع) قتل کیا جائے گا ،اگر آپ (ص) چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ (ص) کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسین (ع) قتل ہونگے.پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتے میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی

سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 2 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 464تا465//حدیث:821،822

ایک اور مقام پر البانی اخبار شہادت حسین کی تخریج اس طرح کرتا ہے

رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جبرائیل ابھی میرے پاس سے گئے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ حسین (ع) کو دریائے فرات کے کنارے شہید کیا جائے گا

احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ

عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتا ہے کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے.نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے

مگر البانی کہتا ہے کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے ، اس طرح ابو یعلیٰٰ ، بزا اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں .اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے
البانی مزید کہتا ہے اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے.

نوٹ:اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227

اس کے بعد البانی نے شہادت امام حسین (ع) سے متعلق 6 طریق نقل کئے ہیں بطور شواھد جو کہ ا س حدیث کو قوی بنا دیتے ہیں
مختلف شواھد نقل کرنے کے بعد البانی کہتا ہے کہ

میں (البانی) ایک جملہ میں یہ بات کہتا ہوں کہ یہ حدیث اپنے مختلف معانی اور تفسیر کے ساتھ ،مختلف صحیح طریق نے اس کو صحیح بنا دیا ہے .اگر چہ کچھ رواۃ میں کمزوری ہے مگر بطور بجموعہ یہ احادیث صحیح اور حسن کے درجے کی ہیں


سلسلتہ الاحادیث الصحیحتہ // ناصر الدین البانی // ج 3 // طبع مکتب اسلامی سعودیہ// ص 159تا162//حدیث:1171

عزاداری امام حسین (ع) سنت رسول (ص) اور سنت علی (ع) سے ثابت ہے


امام حسین (ع) کی عزاداری میں خود رسول اللہ (ص) نے گریہ فرمایا ہے اور غم حسین (ع) میں رونا سنت رسول (ص) ہے ، امام حسین (ع) کی ولادت کے وقت اور مختلف اوقات میں فرشتے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر لاتے تھے اور خاک کربلا کو رسول اللہ (ص) کی خدمت میں پیش کرتے تھے جیسا کہ مندرجہ ذیل صحیح روایات سے ثابت ہے

حدیث نمبر: ا

ام ُُ المومنین عائشہ یا ام المومنین ام سلمہ (رہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ آج ہمارے گھر میں فرشتہ آیا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں آیا .فرشتے نے مجھے بتایا کہ یارسول اللہ (ص) آپ کا یہ بیٹا حسین (ع) قتل کیا جائے گا ،اگر آپ (ص) چاہے تو میں اس زمین کی کچھ مٹی آپ (ص) کو دے سکتا ہوں جہاں پر حسین (ع) قتل ہونگے.پھر رسول خدا(ص) نے فرمایا : فرشتے میرے لئے مٹی لایا جو کہ لال رنگ کی تھی

محقق کتاب فضائل صحابہ ، کہتا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح ہے

محقق کتاب فضائل صحابہ ڈاکڑ وصی اللہ بن محمد عباس کی تحقیق مزید


مندرجہ بالا روایت کے حاشیہ میں محقق کہتا ہے کہ اس روایت کی تخریج مسند احمد میں بھی ہے ، ہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ احمد نے اس کو روایت کیا ہے اور اس کے رجال ، الصحیح کے رجال ہیں . طبرانی نے بھی اسے عائشہ سے اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے .احمد نے بھی مسند میں نجی کے ساتھ اس کی اسناد صحیح کے ساتھ تخریج کی ہے اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں

فضائل صحابہ //احمد بن حنبل //تحقیق:ڈاکٹر وصی اللہ بن محمد عباس //ج : 2 // طبع الاولیٰٰ 1403ھ ،جز2،جامعہ ام القری مکہ سعودیہ//ص 770//حدیث:1357

مندرجہ بالا حدیث مسند احمد بن حنبل میں بھی ہے ،ہم یہاں اس حدیث کی تحقیق پیش کر رہے ہیں جو کہ محقق مسند نے انجام دی ہے


محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث اپنے طریق کے ساتھ حسن کے درجہ کی ہے .اس کے بعد محقق کتاب نے اس حدیث کے شواھد ذکر کئے ہیں

احمد نے فضائل صحابہ میں ، طبرانی نے معجم کبیر میں ، ھیثمی نے مجمع الزوائد میں اور کہا ہے کہ اس کے رجال الصحیح کے رجال ہیں ،ابن طھمان نے مشیختہ میں ، عاصم نے 2 مختلف طریق سے احاد و المثانی میں ، طبرانی نے معجم میں 5 مختلف طریق سے ، حاکم نے مستدرک میں ، بیھقی نے 2 مختلف طریق سےدلائل میں ، ابن شیبہ نے مصنف میں، اور دارقطنی نے العل میں 2 مختلف طریق سے خبر شہادت امام حسین (ع) کو نقل کیا ہے

مسند احمد // احمد بن حنبل // تحقیق: شعیب الارنوط و دیگرمحقیقین// ج : 44// طبع بیروت موسستہ رسالہ،جز 50 // ص 143//حدیث:26524


علامہ ذہبی نے اپنی کتاب تاریخ اسلام میں شہادت امام حسین (ع) سے متعلق تمام اخبار کو نقل کیا ہے اور جناب ام سلمہ (ع) والی مندرجہ بالا روایت کے متعلق کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں . اس کو احمد اودیگر کئی لوگوں نے روایت کیا ہے

تاریخ اسلام // محمد ذہبی // تحقیق: ڈاکٹر عمر عبدالسلام // ج: 5 حوادث : 61 ھجری // طبع اولیٰٰ 1410 ھ ،جز53، دارُُ الکتاب العربی // ص 104



حدیث نمبر: 2


انس بن مالک صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ (ص) کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی ، اور اس دن رسول اللہ (ص) جناب ام ُُ سلمہ (رہ) کے گھر تشریف فرما تھے،جناب رسول اللہ (ص) نے ام سلمہ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا،انس بن مالک کہتا ہے کہ ام سلمہٰ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی (ع)حجرے میں آگئے ،چنانچہ رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ (ص) ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ (ص) نے کہا: ہاں ،فرشتہ بولا کہ آپ (ص) کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ (ص) چاہے تو میں وہ زمین آپ (ص) کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا . رسول اللہ (ص) نے کہا کہ ہاں دیکھائو ،چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ ،رسول اللہ (ص) کو دیکھایا.وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی ،جو بعد میں ام سلمہ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی
ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی متی ہے

محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن

مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 6// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14، دار المامون التراث بیروت // ص 129 // حدیث:3402

حدیث نمبر : 3


انس بن مالک صحابی سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے اللہ سے رسول اللہ (ص) کی زیارت کی اجازت مانگی ،اللہ نے اجازت دے دی ، اور اس دن رسول اللہ (ص) جناب ام ُُ سلمہ (رہ) کے گھر تشریف فرما تھے،جناب رسول اللہ (ص) نے ام سلمہ کو کہا ہے کہ تم دروازے پر بیٹھ جائو اورکسی کو اندر آنے کی اجازت نہ دینا،انس بن مالک کہتا ہے کہ ام سلمہٰ دروازے کے پاس بیٹھی تھی کہ اچانک حسین ابن علی (ع)حجرے میں آگئےاور رسول اللہ (ص) کی پشت پر سوار ہوگئے ،چنانچہ رسول اللہ (ص) نے امام حسین (ع) کو گلے لگایا اور ان کو بوسا لیا .تب فرشتے نے کہا کہ آپ (ص) ان سے محبت کرتے ہیں ? آپ (ص) نے کہا: ہاں ،فرشتہ بولا کہ آپ (ص) کی امت ان کو قتل کرے گی ، اس نے مزید کہا کہ اگر آپ (ص) چاہے تو میں وہ زمین آپ (ص) کو دیکھا سکتا ہوں جہاں ان کو قتل کیا جا ئے گا . رسول اللہ (ص) نے کہا کہ ہاں دیکھائو ،چنانچہ فرشتے نے ہاتھ جھٹکا اورمٹی سے بھرا ہوا ہاتھ ،رسول اللہ (ص) کو دیکھایا.وہ مٹی سرخ رنگ کی تھی ،جو بعد میں ام سلمہ نے اپنے کپڑے میں سنبھال لی
ثابت کہتا ہے کہ ہم یہ کہتے تھے کہ یہ کربلا کی متی ہے


محقق کتاب کہتا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے.اور اس نے دیگر کتب حدیث سے اس کی تخریج کی ہے

الاحسان فی تقریب صحیح ابن حبان// ابن حبان //محقق: شعیب الارنوط// ج 15// طبع الاولیٰٰ 1408ھ ، جز 18، موسستہ الرسالہ // ص 142// حدیث:6742

البانی نے صحیح ابن حبان کی تعلیقات میں مندرجہ بالا حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے

التعلیقات الحسان علیٰ صحیح ابن حبان // ناصرالدین البانی // ج 9 //طبع دار با وزیر ، جز 12، ص 406//حدیث:6707


حدیث نمبر: 4


عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمبرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل بے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا

محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
محقق کتاب کہتا ہے نینوی ، نبی یونس (ع) کا گائوں تھا ،موصل عراق میں اور یہ نینوی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسین (ع) شہید ہوئے تھے

مسند ابو یعلی ٰٰ الموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363

نوٹ : انشاء اللہ ، اب ہم اھل سنت و سلفی علماء کی معتبر کتب سے احادیث کی تخریج کریں گے جس کو انھوں نے صحیح قرار دیا ہے

ماتم کس لیے کیا جاتا ہے _ یہ ایک قسم کا اظہار غم ہے


آپ نے ٹی وی پر دیکھا ہوگا جب بے نظیر پر حملہ ہوا حملے کے بعد والی کچھ ویڈیو دیکھا ئیں گیئں کچھ لوگ لاشوں پر سینے پیٹ رہے تھے تو کیا وہ شیعہ تھے __ یا وہ امام حسین (ع) کے غم میں ماتم کر رہے تھے وہ ان کا اظہار غم تھا_

اگر آپ کے ہاں کو ئی مر جاتا ہے تو آپ اس پر نہیں روتے ...

جیسے آپ نے کربلا کو ہا دثہ کہا __ ویسے اگر آپ کو ئی ظلم ہوتا دیکھ لیں سن لیں پھر آپ کی کیا کفیت ہو گی

اظہار کرنا محبت پر ہوتا ہے __ جتنی آپ کے دل میں اس غم کی محبت ہوگی اتنا ہی زیادہ اظہار غم ہوگا__ یہ تو نہیں ہم ہر وقت ماتم کرتے ہیں جب اہلبیت کی خو شیوں کے دن ہوتے ہیں ہم خوشیاں مناتے ہیں جب مصائب کے دن تو ہم مصائب میں__

گریہ و ماتم-Ghirya o Matam


ایک ناصبی نے ہمارے گروپ شیعہ یونٹی میں ایک پوسٹ بھیجی جس میں لکھا تھا کہ رونہ و ماتم کو قرآن مجید سے ثابت کیجئے وہاں تو ہم لوگوں نے اس ناصبی کو جواب دے دیا سوچا کہ آپ دوستوں کے ساتھہ بھی یہ بات شیر کروں

وہ مذہب ہی نہیں جن کے عقائد قرآن سے ثابت نہ ہو

مخالفین عزادری امام حسین عموماً حکم صبر کو عزاداری کے خلاف بطور دلیل پیش کرتے ہیں -حالانکہ صبر کے معنی وہ نہیں ہے جو معترضین لیتے ہیں صبر کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو ایسی چیز کے اظہار سے روکے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہے-

قرآن

قرآن مجید میں جابجہ موجود ہے کہ تمام انبیاء کرام مختلف موقعوں پے روئے گر گرائے لیکن ذات خدا نے ان کے اس فعل کو ناجائز قرار نہیں دیا
قرآن مجید کھول کے ماتم حسین کو حرام کہنے والے دیکھہ لے کہ جناب آدم ء -نوح ء- ایوبء- یحییء- ذکریاء- یونسء-اور حضرت یعقوب جیسے جلیل القدر نبی روئے-
آپ ص نے اپنے لیے اور اپنے اصحاب کے لیے رونے کو پسند کیا اور کبھی کھل کر آپ صہ نہ ہنسے


ارشاد رب العزت ہے
وتضحکون ولا تبکون و انتم صامدون
اور مضحکہ کرتے ہو اور نہیں روتے؟اور تم غافل ہو
النجم

اذا تتلی علیھم آیات الرحمن خر و السجدا وبکیا
جب ان پر آیات رحمان کی تلاوت کی جاتی ہے تو روتے ہیں سجدے میں گر پرتے ہیں
مریم 58

اب آتے ہیں ان آیات کی طرف جو غم و رنج کے عالم میں رونے کو جائز ورار دیتی ہے

اور نہ ان لوگوں پے کوئی گناہ یا الزام ہے کہ جس وقت آپ کے پاس اس واسطے سے آتے ہیں کہ آُ ان کو سواری دیدے اور آپ کہہ دیتے ہیں کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں جس پر تم کو سوار کردوں وہ اس حالت سے واپس چلے جاتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو روا ہوتے ہیں اس غم میں کے ان کے پاس خرچ کرنے کے لیے کچھہ نہیں
قرآن مجید پارہ نمبر 10 سورہ التوبہ آیت نمبر 93

اس آیت سے ثابت ہوا کہ غم یا افسوس کے اوقات میں رونا منع نہیں بلکہ جائز قابل تعریف ہے


چنانچہ قرآن مجید حضرت یعقوب ء کا قصہ موجود ہے کہ فراق پسر میں حزن و رنج کے عالم میں ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں پھر قرآن مجید میں ہی ملتا ہے ان باتوں کے باوجود اللہ پاک نے حضرت یعقوب کو صبر جمیل کا لقب عطا فرمایا

پس ثابت ہوا کہ رونا خلاف صبر نہیں

اب سب سے برا اعتراض جو ہے وہ ماتم کرنے کا ہے آیئے قرآن مجید سے دیکھتے ہیں کہ کسی نے اگر ماتم کیا تو اللہ نے اسے روکا تو نہیں اگر روکا ہے تو گناہ ہے اور اگر نہیں تو اجازت الہی میں شامل ہے جس چیز کی اجازت ہو اس کے کرنے پر ثواب ملتا ہے

ملاحظہ فرمائیں
پس آئی بیوی ابرہیم کی چلاتی ہوئی اور اس نے اپنا منہ----
الذاریت 29

امید ہے اعتراض لگانے والے اس چھوٹے سے آرٹیکل کو خوب پرھہ کے جواب دینے کی کوشش کرینگے

اب شیعہ لوگوں نے اپنی بات قرآن سے ثابت کرلی ہے مگر اتہام حجت کرنے کے لیے کچھہ روایات پیش کرتے ہیں

حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ رسول خدا نے وفات پائی تو میں نے حضور کا سر تقیہ مبارک پر رکھہ دیا میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی اور میں نے اپنا منہ پیٹا-

مسند احمد بن حنبل ج 6 ص 274
تاریخ طبری ج 3
تاریخ السلام
السیر ۃ النبویہ ص 306

شریعت عہد رسالت میں مکمل ہوچکی تھی لہذا بی بی عائشہ نے تکمیل شریعت کے بعد ماتم کیا پس ثآبت ہوا کہ آنحضرت نے ماتم کو حرام قرار نہیں دیا تھا

زرا امی عائشہ کے الفاظ پے غور کیجیے میں عورتوں کے ساتھہ کھری ہوگعی یعنی بقیہ ازواج نے بھی ماتم کیا

 

Matam aur Azadari -Sunni References

شہیدِ اسلام حضرت حًزہ پر رونے والوں کو رسول پاک (ص) نے دعا دی رونے کو بدعت نہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔



یا حضرت اویس رضی اللہ عنہ نے جو کیا وہ ماتم نہیں؟
کم از کم ان کی سنت تو ادا کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم خوامخواہ 351 ہجری لے چلے۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے مرثیہ بھی رسول اکرم(ص) کے زمانے میں دکھا دیا اور ماتم بھی صحابہ کے فعل سے ثابت کر دیا۔۔۔۔۔ رونا بھی ثابت ہو گیا بلکہ رسول(ص) نے دعا بھی دی۔۔۔۔۔۔


صبر کے مقامات ہوتے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر بار صبر نہیں کر سکتا صبر افضل ضرور ہے مگر صبر نہ کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا ہاں وہ اللہ سے شکایت نہ کرے۔۔۔۔ محبت کی انتہائی شدت بعض اوقات انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ جس سے محبت کر رہا ہے اس کے لئے دل کھول کر روئے ۔۔۔۔ احتجاج کے دوران جب جذبات کی شدت حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ سینہ پیٹ کر اپنے شدتِ جذبات کا احساس دلاتے ہیں اور آج کل کے مظاہروں میں تو اہلِ سنت حضرات بھی روٹی کی خاطر یا تنخواہ بڑھانے کی خاطر سینہ پیٹتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ وہ صبر کیوں نہیں کرتے؟ دنیاوی کاموں سے محبت میں سینہ پیٹنا جائز مگر محبتِ حسین میں سینہ پیٹنا بدعت۔۔۔۔ اور تب صبر بھی یاد آ جاتا ہے۔۔۔۔

اور عمر صاحب دین اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانی فطرت سے متصادم کوئی قانون اس میں شامل نہیں۔

حضرت اویس رضی اللہ عنہ بھی تو صبر کر سکتے تھے نہ؟

امی عائشہ کا ماتم


امی عائشہ فرماتی ہیں : جب رسول (ص) کا وصال ہوا تو رسول (ص) کا سر امی کی گود میں تھا امی عائشہ نے رسول (ص) کے وصال پر اپنے منہ پر خوب طمانچے مارے

‏حدثنا : ‏ ‏يعقوب ‏ ‏قال : ، حدثنا : ‏ ‏أبي ‏ ‏، عن ‏ ‏إبن إسحاق ‏ ‏قال : ، حدثني : ‏ ‏يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ‏ ‏، عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عباد ‏ ‏قال : سمعت ‏ ‏عائشة ‏ ‏تقول ‏: ‏مات رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏بين ‏ ‏سحري ‏ ‏ونحري ‏، ‏وفي ‏ ‏دولتي ‏ ‏لم أظلم فيه أحداً فمن ‏ ‏سفهي ‏ ‏وحداثة سني ‏ ‏أن رسول الله ‏ ‏قبض ‏ ‏وهو في حجري ، ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ‏ ‏ألتدم ‏ ‏مع النساء وأضرب وجهي
مسند أحمد - باقي مسند الأنصار - باقي المسند السابق - رقم الحديث : ۲۵۱۴۴


تاویل


قول السيدة عائشة ( ألتدم ) ، قال السهيلي وغيره : الإلتدام : ضرب الخد باليد ، واللادم : المرأة التي تلدم والجمع : اللدم بتحريك الدال وقد لدمت المرأة تلدم لدماً ولم يدخل هذا في التحريم ، لأن التحريم ، إنما وقع على الصراخ والنوح ، ولعنت الخارقة والحالقة والصالقة - وهي الرافعة لصوتها - ولم يذكر اللدم لكنه وإن لم يذكر فإنه مكروه في حال المصيبة ، وتركه أحمد إلاّ على أحمد (ص) : فالصبر يحمد في المصائب كلها * إلاّ عليك فإنه مذموم وقد كان يدعي لابس الصبر حازما * فأصبح يدعى حازما حين يجزع

سبل الهدى والرشاد ج۱۲ ص۲۶۷


سند


وقد أخرج عمر أخت أبي بكر حين ناحتوصله بن سعد في الطبقات بإسناد صحيح من طريقالزهري ، عن سعيد بن المسيب قال : لما توفي أبو بكر أقامت عائشة عليه النوح فبلغ عمر فنهاهن فأبين فقال لهشام بن الوليد : أخرج إلى بيت أبي قحافة يعني أم فروة فعلاها بالدرة ضربات فتفرقالنوائح حين سمعن بذلك ، ووصله إسحاق بن راهويه في مسنده من وجه آخر ، عن الزهري وفيه فجعل يخرجهن إمرأة إمرأة وهو يضربهن بالدرة

فتح الباري ج۵ ص۷۴
 

Karbala, I miss you and I will never forget you.

After Imam Ali (as) was struck, the fatal strike with the poisonous sword, Imam Ali (as) said a few words to his sons Imam Hassan (as) and Imam Hussain (as). This is a little excerpt from his final will:
O Children of Abdul Muttalib! Do not shed the blood of Muslims under the banner: The Imam has been assassinated! Only the assassin should be condemned to death.

If I die of this stroke of his, kill him with one similar stroke. Do not mutilate him! I have heard the Prophet, peace be upon him, say: “Mutilate not even a rabid dog.” 

This man, who taught his sons never to mutilate anyone, think of what must have gone through his mind and how hurt he would’ve been when his own family was being mutilated.
When Qasim’s (as), his eldest son’s son, dead body was trampled by horses, what he would have been feeling is unimaginable.
When his second son, Imam Hussein’s (as) body was covered in arrows to the point that when he fell, he didn’t fall on his back but his body stopped on the arrows. Think of how he felt when his son’s head was cutoff and put on an arrow and displayed as treasures of war.
Think of what he must have been going through when his other son, Abbas (as), was mutilated while he was alive! Both of his hands were cut off, an arrow in his eye. This is the Moon of Banu Hashim we’re talking about!
When the bodies of Abbas (as), Ali Asghar (as), Ali Akbar (as), Hussain (as), and Qasim (as) had horses running over them from left to right, and people were glittering with joy at that sight.
Think of the pain Amir-ul-Momineen (as) was going through.

--------Majlis  Sayyed Ammar Nakshawani (Biography of Imam Hussain a.s)

 Imagine when your father has died and someone comes up to you from Syria and he asks you;
“ What’s your name?”  He said, “I am Hosseyn”
“Son of who?” “Son of Ali ibn Abi Taleb ” He said, “ May Allah curse you and your father Ali”
If someone talked to you like that how would you reply back?
 “May Allah curse you and your father ” - the man was Hisab ibn Mustalak.
The Imam (a.s.) said: 
“Is the wind of this area hurting you? Or maybe you had a disagreement with your wife? Is there a shelter for you to stay in? Has no one provided you with clothing? Please come and stay in my house if you are a stranger around this area ”
Wallah that kills me. The man began to cry. Hisab said,
 “Ya Aba Abdallah! I cursed your father in front of you and this is how you answer me back, by making your house available to me?!”
The Imam (a.s.) said: 
This is the family of Rasoolilah and this is how we treat people. People may come and curse us but we come back with morals because our grandfather Rasoolilah came to perfect the morals of mankind  ”
Notice these stories don’t have anything to do with Karbala.
Before Karbala in the Battle of Nahrawan, soldiers who were caught by Ali ibn Abi Taleb (a.s.) were standing. One of the soldiers, you all know him very well, he was fighting Ali ibn Abi Taleb on that day. He had some rope around his hands. It wasn’t too tight but it was around the hands. Imam al-Hosseyn a.s was walking past and he saw the soldier. The soldier looked at him and said,
“  Hosseyn, I beg you, please remove this rope from around my hands. The rope is causing nervousness in me, please remove it  ” , Al-Hosseyn  a.s went back to his father and asked,
 “O my father, I want to ask a favour from you ”
His father replied,   “  Yes, what is it?  ”
  Imam Hussain a.s  said : “ this person over there, do you see him? ”   “ Yes, I do see him  ” 
Imam Hussain  said : “  He says to me the rope is tight around his hands, even though you would never put a tight rope, but it seems to be hurting him. And he asked me to remove it. O my father, do you allow  me? ”
Ali  a.s looked at him and he said, “O Aba Abdallah, go ahead. Aba Abdallah, why do you want to answer this  the man’s plea ? “
Imam Hussain  said :O my father when someone asks through me, how can I reject ?  I don’t want the person to be embarrassed.”
When you realize who this person is, then you will realize how magnanimous this man is.
He went back to the person, Al-Hosseyn  a.s said
“Give me your hands ” and removed the rope from the hands of Shimr ibn al-Jawshan.
 “ Tell me  which mercy did he show you when he sat on your chest on that afternoon in Karbala? ”
 ” One day you sat on the chest of your grandfather Rasulallah (s), the next Shimr sat on your chest. How could your ummah let you down and slaughter the one who was from the prophet and the prophet was from him.  ”
Allah huma lan qatlatal Hussain (a.s.)

Imam Husain (a.s.) in the AhleSunnah

Birth
Imam Husain b. Ali (a.s.) was born in Madinah on 3rdShabaan 4 A.H. which was a Tuesday. As soon as Imam (a.s.) was born, he was taken to his grandfather �” the Holy Prophet (s.a.w.a.).  The Holy Prophet (s.a.w.a.) was delighted at seeing the infant and himself recited the Azaan and Iqaamah in Imam Husain’s (a.s.) right and left ears respectively.
The Holy Prophet (s.a.w.a.) advised his daughter Hazrat Fatima Zahra (a.s.), “Shave his head and give silver equal to his hair’s weight.”
Imam (a.s.) was in his grandfather’s company for a period of over 6 years, with his father �” AmeerulMomineen (a.s.) for 29 years and 11 months, with his brother Imam Hasan (a.s.) for 10 years. He survived his brother for 10 years, which was the period of his Imamate.
Name and Title
Imam Husain’s (a.s.) agnomen (kuniyyat) was Abu Abdillah. He had several titles, the most famous one being the one he acquired from his martyrdom Sayyid Al-Shohada (Chief of the Martyrs). This was the title of Hazrat Hamzah, the Holy Prophet’s uncle (s.a.w.a.), with which the Muslims addressed Imam Husain (a.s.), the Holy Prophet’s (s.a.w.a.) grandson, after his martyrdom.
Like his brother Imam Hasan (a.s.), Imam Husain (a.s.) was named by the Holy Prophet (s.a.w.a.) on divine command.
Ameerul Momineen (a.s.) recounts, “When Hasan stepped into this world, I named him Hamzah after my (s.a.w.a.) uncle. Likewise, when Husain was born, I called him Jafar, after another uncle.
One day the Prophet (s.a.w.a.) called me and informed, “I have been commanded to change their name to Hasan and Husain.”
According to another narration, the Holy Prophet (s.a.w.a.) related, “The names of Hasan and Husain correspond to the sons of Prophet Haroon. His sons were named Shabbar and Shabbir and I have named them with the corresponding Arabic names viz. Hasan and Husain.
Prophecy of Martyrdom
The news of Imam Husain’s (a.s.) martyrdom was given by the Prophet (s.a.w.a.) to Asma bint Umays on the occasion of his birth. Asma narrates, “When Imam Husain (a.s.) was born, the Holy Prophet (s.a.w.a.) visited the house and said, ‘Bring my son to me.’ I brought the infant wrapped in a white cloth and handed him over to the Prophet (s.a.w.a.). He (s.a.w.a.) recited Azaan in the infant’s right ear and Iqama in his left ear. Then while still holding the infant, he began weeping.’
Surprised, I asked, ‘May my father and mother be sacrificed on you, what makes you weep?’
He (s.a.w.a.) replied, ‘For this son.’
I asked, ‘He is just born and is the cause of your weeping?
He (s.a.w.a.) informed, ‘Yes, O Asma. A rebellious group will kill him. May Allah deprive them of my intercession! Do not inform Faatemah about this news as the birth is fresh in her memory (and the news will upset her).’

HAZRAT ALI ASGHAR (AS)- child of Imam Hussain

Hazrat Ali Asghar was the youngest child of Imam Hussain. He was born only a few weeks before Imaam left Madina. His mother's name was Rubaab daughter of Imra'u'l Qais who was the chief of the tribe of Kinda.
Rubaab had two children, Sakina and Ali Asghar. She and her two children accompanied Imaam to Kerbala. The fact that Imaam took with him a newly born baby further demonstrates the that his intention was never to engage in any armed rebellion.
At Kerbala Asghar was only six months old. From the seventh Muharram there was no water in Imam's camp. Asghar was in great pain because of thirst.
Hazrat Ali Asgar-Child of Hussain(A.S)
On Ashura day, after Ali Akber had been killed, Imaam Hussain was standing outside the camp. He was left all alone and he was preparing to go into the battlefield. Just then he heard a child cry. It was Ali Asghar, tormented by the pangs of hunger and thirst.
Imaam walked into Bibi Rubaab's tent. He lifted the child from the cradle. "Rubaab," he said, "I will take him to Yazeed's army. Surely they can not possibly deny this little infant a few drops of water?" Rubaab changed Ali Asghar's clothes. She even tied a small turban on his head. Like any other mother she wanted her son to look at his best in front of strangers.
Imaam Hussain carried the child to the battle field. Walking up to Yazeed's soldiers Imam Hussain said, "This child has done you no harm. He is dying of thirst. I am begging for a few drops of water for him."There was no response. Imaam said, "If you are afraid that when you bring Asghar any water I will drink it, look, I will put him on the ground and you can come yourself and give him water." He put the child on the sands of Kerbala and moved a couple of steps back.You can imagine how hot the desert sand was. Asghar lay there not even wincing. He turned towards the enemy and stared at them. A murmur arose among the soldiers but no one came forward to give water to the baby. Imaam took Asghar in his arms and in a clear voice said, "Asghar, my son, show them how thirsty you are!" Asghar turned his head towards the soldiers. He smiled sweetly. Opened his mouth. Brought out his dry tongue and moved it over his lips. The ultimate sword had been unsheathed !

History Lessons from Karbala

The idea of defiance against tyranny and oppression owes a great deal to Hussain ibne Ali, the hero of the battle of Karbala in 680 AD. With just 72 valiant followers and family members, the grandson of Prophet Mohammad faced the military might of the Muslim empire ruled then by a despot, Yazid bin Mu‘awiya. Hussain refused to sanctify Yazid’s reign through baya’a (allegiance) and consequently, he and his small contingent were martyred in the most brutal of fashions. The accompanying women and children were imprisoned for months in the dark alleys of Damascus.
Imam Hussain (a.s.) with Infant Ali Asgar(as)

On every Ashura, the 10th day of the Muslim calendar month of Muharram (which fell on December 6 this year), many Muslims all across the world commemorate Hussain’s great sacrifice, but tragically the central message ofKarbala appears to evade the broader Muslim thinking today. In Western literature and research on Islam, this episode is often viewed through the lens of certain Shi’a rituals practiced on and around Ashura. It is worth probing why that is so. Even more importantly, it is critical to understand why terrorists and extremists like al-Qaeda andthe Taliban often attack the Ashura related gatherings (as is evident from attacks in recent years in Iraq, Afghanistan and Pakistan), and what is at the core of their disdain of all the things that Imam Hussain stood for.
A brief historical reference is required to understand the context of Ashura. After Prophet Mohammad’s death in 632 AD, the expansion of Islam became a global phenomenon, courtesy of a variety of means. Islam was a rising power in theworld, but in the process, the fabric of Muslim society was also being transformed, as the Muslim outlook was gradually influenced by people from various cultures. New elites that were more interested in power and wealth alone started emerging as more influential, and consequently, Islam’s emphasis on egalitarianism, justice and equity started getting diluted. A deliberate attempt to imitate the dynastic empires of the Byzantines and Sasanians was obvious to many observers at the time. The distortion of Islamic ideals became a favorite pastime of Yazid and his coterie. The expansion of influence by way of the sword was a hallmark of his times.

Aerial View of Karbala and Pilgrims

Eulogy capturing the pilgrims by the millions, visiting our beloved Hussain[as]

View from above

Saying of Imam Hussain (A.S.) with References


1 - How can a thing the existence of which is dependent on you be taken as a proof for your existence? Is there anything more evident than your "self" disclose you? Are you hidden to need a guide to find you? Surely you are not. Are you far-away to need your footprints to find you? Surely you are not! Blind may the eyes be which do not see you watching and guarding your "self" 
(Arafa prayer; Bihar al- Anwar, Vol. 98 , P. 226)

2 - He who has you , has everything , and he who has deprived himself of you is the poorest in the world. Loser is the one who chooses and be content with anyone or anything other than you. (Bihar al- Anwar, Vol. 98 , P. 228)

3 - Never will be salvaged the people who win the consent of the creature at the cost of the dissatisfaction of the creator. (Maktal Khawarazmi , Vol. 1 , P. 239)

4 - No one will feel secured on the Resurrection Day except those who feared God in this world. (Bihar al- Anwar, Vol. 44 , P. 192)

5 - The Almighty God said : "The believing men and the believing women , they are guardians of each other , enjoin good and forbid evil... "God attaches primary importance to enjoining good and forbidding evil " as a duty for men and women. For he knows that if it were fulfilled all the other duties , easy or hard , will be accomplished. That is because "enjoining good and forbidding evil" is a call for Islam , it regains the rights of the oppressed and opposes tyrants. (Tohaf-al- Uqoul , P. 237)

6 - O' people , the Messenger of God said : Whoever sees an aggressive tyrant legalizes the forbiddens of God , breeches divine laws , opposes the tradition of the Prophet , oppresses the worshippers of God , but does not concede his opposition to God in word or in deed , surely Allah will place that tyrant ( in the Hell ) where he deserves. (Maktal Khawarazmi , Vol. 1 , P. 234)

7 - People are slaves to the world , and as long as they live favorable and comfortable lives , they are loyal to religious principles. However , at hard times , the times of trials , true religious people are scarce. (Bihar al- Anwar, Vol. 78 , P. 117)

This is what we believe


O my Allah, bring me to life again, after death, in the place Mohammad and his “Aal” (children) are dwelling, and make me depart from this world like Mohammad and his “Aal” (children) had left. Amen

For us Muharram is not only about Imam Hussain (a.s.), it is a time of spiritual renewal and personal reflection- as well as a chance for us to continue the fight against oppression and inequality in the world around us. The traditional saying is that “every day is Ashura, every land is Karbalah”. We believe that the lessons of Ashura should not just be left in our places of worship, they should become a reality as we contemplate the reality of tyranny in our own societies. For us, Hussain (a.s.) himself represents the very pinnacle of our existence- the embodiment of truth and justice that Islam serves to uphold. His martyrdom represents the capability of evil to destroy even that which is firm in imaan (faith), compassion, social equality, and steadfastness in following truth. Hussain (a.s.) knew which side he was on.  One one side, autocracy, injustice, and oppression, whilst on the other, the oppressed masses, their struggle for justice and their yearning for liberation. Surrounded and outnumbered, our Imam (a.s.) chose his side and paid for it with his life. With everything stacked up against him, Hussain stood up for the people and their freedom, siding with what he knew was right. He didn’t allow any biases or preconceptions to come in the way of his ultimate choice. He objectively analysed the reality around him, recognized the truth, and made his stand.
The position of Imam Hussain (a.s.) himself in Islam, regardless of what school of thought or sect we follow, is something that alone should be reason enough to commemorate the month in which he and his followers were granted istishhad (martyrdom).
The Prophet Muhammad (s) said, among other ahadith:
Hussain is from me, and I am from Hussain”. (Jami Tirmidhi)
“ I saw the Messenger of God pitch a tent in which he placed ‘Ali, Fatima, Hasan, and Husayn. He then declared: ‘O Muslims, I am at war against anyone who wars against the people of this tent, and am at peace with those who show peace toward them. I am a friend to those who befriend them. He who shows love toward them shall be one of a happy ancestry and good birth. Nor would anyone hate them except that he be of miserable ancestry and evil birth.” (Al-Riyadh an-Nadhira)
When God’s Messenger was asked which member of his family was the dearest to him, he replied, “Al-Hasan and al-Hussain.” He used tosay to Fatimah, “Call my two sons to me,” and then would sniff and cuddle them.” (Tirmidhi)

“Al-Hasan and al-Husain are the chiefs of the youth of Paradise and Fatimah is the chief of their women.” (Tirmidhi, Ibn Majah, al-Tabarani)”.

To remember the death of Imam Hussain (a.s.) and his companions is to remember the day that the rights of the Prophet Muhammad’s (s) holy and purified family were robbed from them- and their companions oppressed and slaughtered. He set out towards Kufah with one message:

I will never give Yazid my hand like a man who has been humiliated, nor will I flee like a slave… I have not risen to spread evil or to show off – nor for spreading immorality or oppression. Rather, I have left to restore the teachings of my grandfather Muhammad. And I only desire to spread good values and prevent evil.

When Hussain (a.s.) was deserted by many of his supporters, he issued a cry that implored future generations and one which still echoes in the hearts of the oppressed and those seeking justice until today: “Is there anybody to help us?”

To us, Imam Hussain (a.s.) and the tragedy of his oppression and death at the hands of the dictator of the time represent the battle for compassion, truth, equality, justice, moral strength, and courage. When the majority would have ran away and would have backed down from confronting Yazeed, our Imam (a.s.) was willing to stand up for justice no matter what the cost was- even his life. He was the man who saved Islam as a religion from being destroyed by corrupt powers, the man who stood up for the rights of the impoverished and oppressed, and the man who continues to inspire hundreds of millions across the globe to this day. His message cuts across class divides, ethnic lines, and even religious divides.
The Salt March, in which Mahatma Gandhi marched for justice and independence in a revolutionary act of civil disobedience across the plains of Gujarat, India- was inspired by Imam Hussain (a.s.).
Gandhi stated:
I learnt from Hussain how to achieve victory while being oppressed.”

The Syrian Christian historian Antoine Bara said:
No battle in the modern and past history of mankind has earned more sympathy and admiration as well as provided more lessons than the martyrdom of Hussain in the battle of Karbala.”
There’s so, so, much more I could say about the significance of Imam Hussain (a.s.) and the importance of mourning/commemorating the day of Ashura but this should give you a basic idea.
Our Message  :
Do you love Prophet Mohammad (pbuh)? Your answer, I presume, is yes of course.
Wouldn’t you then love his family? His grandsons? The men who carried the same blood as the Holy Prophet himself?
Wouldn’t you then remember the cruel way his grandson, Imam Hussain (as), was beheaded?
Remember Karbala, remember what the Prophet’s grandson stood for, remember what he died for… You don’t need to be part of a certain sect to remember his sacrifice for Islam.

Imam Hussain (as) was given a choice by Allah


الشيخ الشريفي في كلمات الإمام الحسين (ع): روي أنه وقعت صحيفة قد نزلت من السماء في يده الشريفة، فلما فتحها ونظر فيها إذ هي العهد المأخوذ عليه بالشهادة قبل خلق الخلق في هذه الدنيا، فلما نظر (ع) إلى ظهر تلك الصحيفة فإذا هو مكتوب  فيه بخط واضح جلي: يا حسين نحن ما حتمنا عليك الموت وما ألزمنا عليك الشهادة، فلك الخيار، ولا ينقص حظك عندنا، فإن شئت أن نصرف عنك هذه البلية فاعلم إنا قد جعلنا السموات والارضين والملائكة والجن كلهم في حكمك، فأؤمر فيهم بما تريد من إهلاك هؤلاء الكفرة الفجرة لعنهم الله، فإذا بالملائكة قد ملأوا بين السموات والارض، بأيديهم حراب من النار ينتظرون لحكم الحسين (ع) وأمره فيما يأمرهم به من إعدام هؤلاء الفسقة، فلما عرف (ع) مضمون الكتاب وما في تلك الصحيفة، رفعها إلى السماء ورمى بها إليها وقال: إلهي وسيدي وددت أن أُقتل وأُحيى سبعين ألف مرة في طاعتك ومحبتك، سيما إذا كان في قتلي نصرة دينك وإحياء أمرك وحفظ ناموس شرعك، ثم إني قد سئمت الحياة بعد قتل الأحبة وقتل هؤلاء الفتية من آل محمد(ص).

Mutilated Body of a Martyr
It was narrated that a paper fell from the sky onto his holy hand (Imam Al-Hussein’s hand (as)) so when he opened it and looked inside it, he saw that it is the covenant pledged for his martyrdom before all creations were created in this world. When he (as) looked at the back of the paper, he saw this written in a clear and obvious writing: “O Hussein! We haven’t destined death for you and We haven’t obligated you with martyrdom so the choice is yours and your rank to us shall not decrease. Hence, if you will to have this adversity be taken away from you, then know that We have made all the skies, lands, angels and Jinn under your order. So order them to do what you want as in annihilating these disbelievers and licentious ones, Allah damn them.” And then the angels filled everywhere between the skies and earth wielding spears of fire waiting for the rule of Al-Hussein (as) and his order to them for obliterating these debauchers. So when he (as) knew the content of that letter and what’s in that paper, he raised it to the sky, threw it towards it and said:” O my God and master! I would love to be killed and revived seventy thousand times while being obedient to You and loving You, especially if my death helps in advocating Your religion, commemorating Your matter and safeguarding the code of Your religious law and I also cannot bear life after the death of the beloved ones and these men of the Household of Mohammad (sawa).”
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
كلمات الإمام الحسين (ع) ص481, عن معالي السبطين, وورد في أسرار الشهادة
Kalimat Al-Imam Al-Hussein (as) p.481 reported from Maali Al-Sebtayn and it was also narrated in Asrar Al-Shahada.
Inspected & Translated by Sayyid Shouhadaa’s (A.S) Center for Islamic Research
تحقيق و ترجمة مركز سيد الشهداء (ع) للبحوث الاسلامية

The Effects and Blessings of Mourning over Imam Husain (a.s.)

Without doubt, weeping over the Imam Husain (a.s.) the Chief of Martyrs (a.s.) has exemplary effects and blessings. Let us evaluate the different types of mourning so that we can identify the nature of weeping upon Imam Husain (a.s.).
Weeping is the representation and symbol of an extreme emotional human state. It can have various reasons and motives, each with its own particularities. In traditions, some conditions are admired and are praiseworthy characteristics of the pure hearted servants of Allah, while other categories of mourning are condemned.
Weeping is a natural expression of grief and discomfort. For example, the enthusiasm at meeting a loved one after a prolonged period at times leads to one or both parties to breakdown. Furthermore, at times crying is indicative of one’s religious beliefs. By this definition too, weeping is indicative of a natural act and is often spontaneous, so it does not become an act of prohibition nor is it considered good or bad according to religious decrees. What is good or bad are the motives and prerequisites which lead to crying.
We will evaluate the nature of mourning over Imam Husain (a.s.) �” The Chief of Martyrs and related effects and blessings. To that end, it is judicious to list the different types of mourning so that we can identify the nature of weeping upon Imam (a.s.).
1. The weeping of an infant �” human life begins with weeping and it is a sign of safety and health. Weeping is indeed the language of the child.
2. The tears of longing �” like the fervent weeping of a mother on meeting her son after a prolonged interval. The tears flow out in an excited and agitated manner.
3. The weeping of affection �” love is among the most basic emotions which convey deep affection. For instance, true love of God is the best virtue a creature can possess and tears are a manifestation of this love.
4. The lament of recognition and awe �” the result of sincere worship and contemplation on the greatness of His creation as well as the importance of duties and responsibilities evoke a special kind of fear within man. This fear is rooted in the fear of God and the need for self-improvement and is also known as awe.
5. The tears of repentance �” from the factors of sorrow that lead to weeping is the accounting of one’s self and this accounting causes man to reflect of his past. It guides him to atone for his short comings and mistakes and tears of regret and remorse flow as a consequence of this remembrance. These tears are the result of repentance and turning towards God.
6. The mourning due to connection with an aim �” sometimes, man’s tears is the bearers of the message of a goal. Crying over the martyr is from this genre of lamentation. The crying over the martyr enlivens the customs of the saga within man. Mourning over the Chief of Martyrs (a.s.) enlivens the Husaini tradition within man. The Husaini custom is that neither is injustice perpetuated nor is it tolerated. Whoever hears about the event of Karbala cannot but help shed tears over it.
7. The crying of humiliation and defeat �” the tears of the weak and helpless, devoid of spirit and courage, when they do not see themselves reaching their goal.

Is Aashura a day of mourning or rejoicing?

Doubt: The tenth day of Muharram is ‘Aashura’. The Jews of Madinah fasted on this day, the day on which Prophet Moses (a.s.) and his followers crossed the Red Sea miraculously. So the Holy Prophet (s.a.w.a.) directed the Muslims to fast on the day of Aashura.

Reply: The report is inaccurate. 

The real report is:
The Prophet (s.a.w.a) on migrating to Madinah found the Jews fasting on the 10th of Muharram. On enquiry, he was told: It is an auspicious day; it is the day when Allah delivered the children of Israel from their enemy (i.e. Pharaoh); and, therefore, Moses fasted on that day.
The Prophet (s.a.w.a) said, ‘I am worthier of Moses than you.’
Thereupon, he fasted on that day and ordered (the Muslims) to fast.
Saheeh-e-Bukhaari vol. 3 Egypt ed.pg 54, Mishkaat al-Masaabih Delhi ed. 1,307 A.H. pg l72
It is noted by the commentator of Mishkaat al-Masaabih that ‘it was in the second year, because in the first year the Prophet (s.a.w.a.) had arrived in Madinah after Aashura, in Rabi al-Awwal.

It should be noted that the Jews had their own calendar and monthly cycles. There is no logic in saying that they fasted on the 10th of Muharram unless it could be proved that this date always coincided with a Jewish day of fast.

The first month of the Jews (Abib, later named Nisan) coincided with Rajab of the Arabs. W.O.E. Oesterley and Theodore H. Robinson have written that in Arabia the most important of all the new-moon festivals was that which fell in the month of Rajab, equivalent to the Hebrew month Abib, for this was the time when the ancient Arabs celebrated the Spring festival. (Hebrew Religion S.P.C.K., London 1955pg128)

Why didn't Hussain bin Ali leave Karbala'?

Why did Hussain bin Ali go to Karbala' knowing what was going to happen to him & his family?

First Answer :  
Yazid (la) had sent spies to murder the Imam (as) in the House of Allah and al-Husayn (as) had to change his niyyah from Hajj to `Umrah to prevent the violation of the sanctity of the Haram. References for this can be found in the books I am listing for the answer to your question below.
al-Hurr b. Yazid al-Riyahi, under instructions from Ibn Ziyad (la), was responsible for leading the Imam to Karbala', even though the Imam had been headed to Kufah. All books of Islamic history that I am aware of more or less convey the following account:
"Al-Hurr said, I desire to take you to the commander Ubaydullah. Imam said,
By Allah! I shall not do so.
Al-Hurr said, By Allah! I too shall not leave you. They repeated this thrice, and when their conversation got heated, Al-Hurr said, I have not been commanded to fight with you. I have been ordered to remain with you until I take you to Kufa. Then now when you refuse to go to Kufa, take a way, which does not go to Kufa nor Madina, while this being a compromise between us. Then I shall write a letter to the commander and you write to Yazeed or Ubaydullah, and Allah should bring forth fairness, so that I may not be entangled in your matter. Imam turned his horse towards Qadisiyyah and Uzayb towards the left, and Al-Hurr and his followers travelled by their side."
http://www.maaref-foundation.com/english/library/pro_ahl/imam03_husain/nafasul_mahmoom/20.htm (p.180)
Once they had arrived in Karbala', a letter written to him by Ibn Ziyad (la) stated:
""Now then O Husain! I have been informed that you have haulted at Karbala. Yazeed has written to me not to recline my head on the bed and not be satiated until I send you to Allah, or you submit yourself to me and Yazeed bin Mu'awiyah. Greetings.""
http://www.maaref-foundation.com/english/library/pro_ahl/imam03_husain/nafasul_mahmoom/22.htm (p. 196)
Other books of reference with identical accounts would be Maqtal al-Husain by al-Muqarram, Maqtal al-Husayn by Abu Mikhnaf, Kitab al-Irshad of al-Mufid, al-Luhuf fi Qatla 'l-Tufuf by Ibn Tawus among others.

Second Answer :

He was prevented by Hurr ibn Yazid Riahi and Umar ibn Sa'ad to leave there without accepting allegiance of Yazid ibn Muawiya.
After the afternoon prayer on the same day, al-Husayn calls his followers to prepare for departure. Al-Hurr swiftly prevents al-Husayn from retracting his steps towards Mak’kah. This incurs al-Husayn to deliver a speech entailing all present to fear God, recognize the rights of all people upon each other, the rights of Prophet Muhammad’s family. He also mentions that if neither al-Hurr nor his soldiers understand these rights, he simply desires to leave in peace. Al-Hurr halts and reconsiders his stance.
When the battle started in Ashura (10th of Muharram, 61 AH), Al-Hurr decided to leave the army of Yazid and joined the army of Al-Hussain, the offspring of prophet Muhammad (PBUH):
Immediately after Umar ibn Sa'd's verdict to wage battle, al-Hurr approaches al-Husayn with 30 of his horsemen. He expresses his major transgressions to al-Husayn by preventing access back to Medina, and compelling them to halt at Karbala.
By omitting himself from al-Husayn’s opposition in the final moments of the Battle at Karbala, al-Hurr’s death embeds itself within the final martyrdom of al-Husayn.
It is never seen that a military commander joins the opposite army during the battle - while he is sure he will be sacrificed as there were only 72 people in front of thousands - and this shows which army was in the correct way.
Third Answer :
  1. Actually Imam didn't leave Mecca to save his life, but to respect Mecca as he knew Yazid will not respect the city and Al-Haraam Mosque (as he didn't and fight against the city some years later in a war with Abdullah bin Zubair). Imam already knew he will be killed and even he knew that he was to be killed in Karbala. Even the name of Karbala was Karbala from decades or centuries before due to the event that had not been happened before Imam Hussain's battle in Karbala, since Karbala is a shorten form of "Karb o Bala" (کرب و بلا) which points to what happened for Imam and his family and friends during half a day.
  2. Imam Hussain had the science of his grand father the holy prophet the city of knowledge, and his father Imam Ali the successor of the holy prophet and the gate to that city of knowledge, with him, peace be upon all of them. He could if he wished to ask Allah kill all of those who were to kill him but he said we are those about whom people are examined. And people were examined in Karbala, some like Hur ibn Yazid Ar-Riyaahi passed the exam successfully and some like Yazid, ibn Sa`d and Ubeidullah ibn Ziyad failed. See how Allah says about Yazid in this regard:
وَإِذْ قُلْنَا لَكَ إِنَّ رَبَّكَ أَحَاطَ بِالنَّاسِ ۚ وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِي الْقُرْآنِ ۚ وَنُخَوِّفُهُمْ فَمَا يَزِيدُهُمْ إِلَّا طُغْيَانًا كَبِيرًا
Behold! We told thee that thy Lord doth encompass mankind round about: We granted the vision which We showed thee, but as a trial for men,- as also the Cursed Tree (mentioned) in the Qur'an: We put terror (and warning) into them, but it only increases their inordinate transgression! [or more precisely translating the last part of the verse: their Yazid was nothing but an inordinate transgression] [17:60]