Skip to main content

Matam aur Azadari -Sunni References

شہیدِ اسلام حضرت حًزہ پر رونے والوں کو رسول پاک (ص) نے دعا دی رونے کو بدعت نہیں کہا۔۔۔۔۔۔۔



یا حضرت اویس رضی اللہ عنہ نے جو کیا وہ ماتم نہیں؟
کم از کم ان کی سنت تو ادا کر لیا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تم خوامخواہ 351 ہجری لے چلے۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے مرثیہ بھی رسول اکرم(ص) کے زمانے میں دکھا دیا اور ماتم بھی صحابہ کے فعل سے ثابت کر دیا۔۔۔۔۔ رونا بھی ثابت ہو گیا بلکہ رسول(ص) نے دعا بھی دی۔۔۔۔۔۔


صبر کے مقامات ہوتے ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر بار صبر نہیں کر سکتا صبر افضل ضرور ہے مگر صبر نہ کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا ہاں وہ اللہ سے شکایت نہ کرے۔۔۔۔ محبت کی انتہائی شدت بعض اوقات انسان کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ جس سے محبت کر رہا ہے اس کے لئے دل کھول کر روئے ۔۔۔۔ احتجاج کے دوران جب جذبات کی شدت حد سے بڑھ جاتی ہے تو لوگ سینہ پیٹ کر اپنے شدتِ جذبات کا احساس دلاتے ہیں اور آج کل کے مظاہروں میں تو اہلِ سنت حضرات بھی روٹی کی خاطر یا تنخواہ بڑھانے کی خاطر سینہ پیٹتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ وہ صبر کیوں نہیں کرتے؟ دنیاوی کاموں سے محبت میں سینہ پیٹنا جائز مگر محبتِ حسین میں سینہ پیٹنا بدعت۔۔۔۔ اور تب صبر بھی یاد آ جاتا ہے۔۔۔۔

اور عمر صاحب دین اسلام دینِ فطرت ہے اور انسانی فطرت سے متصادم کوئی قانون اس میں شامل نہیں۔

حضرت اویس رضی اللہ عنہ بھی تو صبر کر سکتے تھے نہ؟

امی عائشہ کا ماتم


امی عائشہ فرماتی ہیں : جب رسول (ص) کا وصال ہوا تو رسول (ص) کا سر امی کی گود میں تھا امی عائشہ نے رسول (ص) کے وصال پر اپنے منہ پر خوب طمانچے مارے

‏حدثنا : ‏ ‏يعقوب ‏ ‏قال : ، حدثنا : ‏ ‏أبي ‏ ‏، عن ‏ ‏إبن إسحاق ‏ ‏قال : ، حدثني : ‏ ‏يحيى بن عباد بن عبد الله بن الزبير ‏ ‏، عن ‏ ‏أبيه ‏ ‏عباد ‏ ‏قال : سمعت ‏ ‏عائشة ‏ ‏تقول ‏: ‏مات رسول الله ‏ (ص) ‏ ‏بين ‏ ‏سحري ‏ ‏ونحري ‏، ‏وفي ‏ ‏دولتي ‏ ‏لم أظلم فيه أحداً فمن ‏ ‏سفهي ‏ ‏وحداثة سني ‏ ‏أن رسول الله ‏ ‏قبض ‏ ‏وهو في حجري ، ثم وضعت رأسه على وسادة وقمت ‏ ‏ألتدم ‏ ‏مع النساء وأضرب وجهي
مسند أحمد - باقي مسند الأنصار - باقي المسند السابق - رقم الحديث : ۲۵۱۴۴


تاویل


قول السيدة عائشة ( ألتدم ) ، قال السهيلي وغيره : الإلتدام : ضرب الخد باليد ، واللادم : المرأة التي تلدم والجمع : اللدم بتحريك الدال وقد لدمت المرأة تلدم لدماً ولم يدخل هذا في التحريم ، لأن التحريم ، إنما وقع على الصراخ والنوح ، ولعنت الخارقة والحالقة والصالقة - وهي الرافعة لصوتها - ولم يذكر اللدم لكنه وإن لم يذكر فإنه مكروه في حال المصيبة ، وتركه أحمد إلاّ على أحمد (ص) : فالصبر يحمد في المصائب كلها * إلاّ عليك فإنه مذموم وقد كان يدعي لابس الصبر حازما * فأصبح يدعى حازما حين يجزع

سبل الهدى والرشاد ج۱۲ ص۲۶۷


سند


وقد أخرج عمر أخت أبي بكر حين ناحتوصله بن سعد في الطبقات بإسناد صحيح من طريقالزهري ، عن سعيد بن المسيب قال : لما توفي أبو بكر أقامت عائشة عليه النوح فبلغ عمر فنهاهن فأبين فقال لهشام بن الوليد : أخرج إلى بيت أبي قحافة يعني أم فروة فعلاها بالدرة ضربات فتفرقالنوائح حين سمعن بذلك ، ووصله إسحاق بن راهويه في مسنده من وجه آخر ، عن الزهري وفيه فجعل يخرجهن إمرأة إمرأة وهو يضربهن بالدرة

فتح الباري ج۵ ص۷۴
 

Comments