Skip to main content

أہل سنت اور حدیث " أمان "

وہ بعض أحادیث کہ جو امامت ومرجیعت دینی اور عصمت أہلبیت (علیہ السلام ) پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے ایک مشہور حدیث ‘‘حدیث أمان" بھی ہے
اس حدیث میں پیغمبر اسلام نے اپنے أہل بیت کو امت کے لیے امان قرار دیا ہے تاکہ ان کی امت اختلاف سے دور رہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر امت مسلہّ رسول اسلام کے بعد أہل بیت کے بتاءے ہوءے راستہ پر عمل پیرا ہوجاءے اور ان کی اقتدا کرلیں تو اختلاف سے بچے رہے نیگے اور ھدایت تک پہونچ جاءےنیگے ،
حدیث أمان کو اہل سنتّ کے علما میں سے ایک جماعت نے اپنی اپنی کتابو ں میں نقل کیا ہے ، ان کی بعض عبارتیں اس طرح سے ہیں ،
۱، حاکم نیشا پوری نے صحیح سند کے ساتھ رسول اسلام ، (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ( النجوم أمان لاھل الارض من الغرق وأھل بیتی أمان لأمتی من الاختلاف ، فاذا خالفھا قبیلۃ من العرب اختلفو ا فصاروا حزب من ابلیس، (۱) ترجمہ ، ستارے اہل زمین کے لیے امان ہیں تاکہ وہ غرق نہ ہو اسی طرح میرے اہلبیت میری امت کے لیے امان ہیں تا کہ ان میں اختلاف نہ ہونے پاءے اگر عرب میں سے کویئ قبیلہ ان کی مخالفت کرے گا تو ان میں خود اختلاف ہوجاءے گا اوروہ شیطان کے گروہ میں سے ہوگا ،
ابن حجر مکیّ وسیوطی نے بھی اس حدیث کو اِسی مضمون کے ساتھ نقل کیا ہے ، (۲)
۲۔ ابن حجر نے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ( ۔۔۔ وأھل بیتی أمان لآمتی من الاختلاف فاذا خالفتھا قبیلۃ من العرب اختلفوا فصارو حزب ابلیس)
میرے اہل بیت وسیلہ امان ہیں میری اُمت کے لیے تاکہ وہ اختلاف میں نہ پڑیں اگر عرب میں سے کویئ قبیلہ ان کی مخالفت کرے گا تو ان میں خود اختلاف ہوجاءے گا اور وہ شیطان کے گروہ میں سے ہوگا ،
۳۔ابویعلی موصلی نے اپنی کتاب مسند میں سند حسن کے ساتھ رسول اسلام ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ( النجوم أمان لآھل السماء وأھل بیتی أمان لاُمتی (۳)ترجمہ ‘‘ جس طرح سے ستارے اہل آسمان کے لیے وسیلہ امان ہیں اِ سی طرح میرے اھلیبت اہل زمین کے لیے وسیلہ آمان ہیں ،
یہ حدیث اِسی طرح دوسرے مضمون سے بھی جوکہ قریب المعنی ہیں نقل ہویئ ہے ، (۴)

۱۔ مستدرک حاکم ،ج ۳، ص ۱۴۹،
۲۔ الصواعق المحرقہ ، ص ۱۵۰، احیا المیتّ ،ج ۳۵،
۳۔ منتخب کنزالعماّل ، ج ۵ ص ۹۲، الجامع الصغیر ، ج ۲، ص ۱۸۹، ؛ذخاءر العقبی ، ص ۱۷،
۴۔ علی اصغر رضوانی ، امام شناسی وپاسخ بہ شبہات (۲) ص ۴۱۵،


 

Comments